برطانوی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2019
برطانوی اسپیکر نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا—فوٹو:اے ایف پی
برطانوی اسپیکر نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا—فوٹو:اے ایف پی

برطانیہ کے دارالعوام کے اسپیکر جان بیرکاؤ نے حکومت کو پارلیمنٹ کی 'تذلیل' نہ کرنے کے لیے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔

اسپیکر جان بیرکاؤ نے برطانیہ کے بریگزٹ بحران کے دوران ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اراکین پارلیمنٹ کو حکومتی پالیسی کو چیلنج کرنے کے حوالے سے پارلیمانی قواعد کو چھیڑا تھا جس میں حال ہی میں یورپین یونین سے دست برداری کو روکنے کے لیے منظور کیا گیا قانون بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق جب اسپیکر نے آنے والے ہفتوں میں اپنے استعفے کا اعلان کیا تو پارلیمان کے اراکین نے کھڑے ہو کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔

جان بیرکاؤ 1997 سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور جون 2009 سے تاحال اسپیکر کے منصب پر فائز ہیں اور حکومت کے لیے بعض اوقات مشکلات بھی کھڑی کیں۔

مزید پڑھیں:بریگزٹ تنازع: برطانوی وزیراعظم کے بھائی پارلیمنٹ،وزارت سے مستعفی

ان کا کہنا تھا کہ ان کے استعفے کے لیے دیے گئے وقت سے اراکین کو ان کے متبادل کو منتخب کرنے کے لیے بہتر موقع ملے گا اور ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات میں نئے اراکین آئیں اور اگلا اسپیکر ان کا انتخاب ہو۔

اسپیکر نے کہا کہ 'میں نے اس ایوان کے مقام کو بڑھانے کے لیے کام کیا اس کے لیے مجھے اس حوالے سے کوئی خاص افسوس نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک شان دار مقام ہے جہاں ایسے لوگ آتے ہیں جو اپنے قومی مفاد کے تصور، عوام کی بھلائی کے خیال اور ان کے فرائض کے ذریعے مندوبین کی حیثیت سے نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کی حیثیت سے ہمارے ملک کے لیے جو صحیح سجھمتے ہیں وہی کرلیتے ہیں'۔

حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم اپنے خوف سے اس پارلیمنٹ کی تذلیل کی'۔

خیال رہے کہ وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے فیصلے پر ہر طرف سے شید تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ملکی تاریخ کے اہم ترین فیصلہ چند ہفتوں بعد ہونے جارہا ہے ایسے میں پارلیمنٹ غیر فعال ہو کر رہ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:ملکہ برطانیہ نے پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی

بیرکاؤ نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ میں انتخابات کے حق میں ووٹ پڑتا ہے تو میں اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا اور اگر توقع کے مطابق اراکین حکومت کے اس اقدام کو مسترد کردیتے ہیں تو میں 31 اکتوبر کو مستعفی ہوں گا۔

اسمبلی میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اگر پارلیمان قبل از اںتخابات کے لیے ووٹ دیتا ہے تو بحیثیت اسپیکر اور رکن اسمبلی میری مدت اس پارلیمنٹ کے خاتمے کے ساتھ مکمل ہوجائے گی'۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے بھائی جو جانسن نے بریگزٹ تنازع میں’خاندانی وفاداری اور قومی مفاد میں الجھاؤ‘ کے باعث پارلیمنٹ اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

جو جانسن کا کہنا تھا کہ’9 برس تک لندن کے مضافاتی علاقے آرپنگٹن کی نمائندگی اور 3 وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بڑے اعزاز کی بات ہے‘۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’میں گزشتہ چند ہفتوں سے خاندانی وفاداری اور قومی مفاد کے درمیان الجھ کر رہ گیا تھا‘۔

جو جانسن نے واضح کیا کہ ’یہ ناقابل حل مسئلہ ثابت ہوا تاہم میری جگہ اب دوسرے رکن پارلیمنٹ میری وزارت کی ذمہ داری سنبھا لیں‘۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر وزیراعظم بورس جونسن کی درخواست پر پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

وزیر اعظم کے فیصلے کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی منظوری کے بعد ستمبر کے دوسرے ہفتے میں پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی اور 5 ہفتوں بعد ملکہ ایلزبتھ دوم 14 اکتوبر کو تقریر کریں گی، تاہم اب نئی صورت حال سامنے آگئی ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم تھریسا مے کو بریگزٹ معاملات میں ناکامی پر اپنے منصب سے استعفیٰ دینا پڑا تھا جس کے بعد بورس جانسن برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں