کھیر تھر پہاڑوں سے انڈس اسکرپٹ دریافت کرنے کا دعویٰ

11 ستمبر 2019
موہن جو دڑو تہذیب کے نقش قدیم پتھروں پر بھی ملتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
موہن جو دڑو تہذیب کے نقش قدیم پتھروں پر بھی ملتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

سندھ کے ایک مقامی محقق نے سندھ اور بلوچستان کی سرحدی پٹی پر وسیع پیمانے پر پھیلے کھیر تھر پہاڑی سلسلے سے کم سے کم 4 ہزار سال قدیم’انڈس اسکرپٹ‘ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

’انڈس اسکرپٹ‘ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہونے والی تہذیب ’موہن جو دڑو‘ میں رائج تھی اور یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کی تحریر ’موہن جو دڑو‘ شہر سے 200 کلو میٹر دریافت ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کے مطابق ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے شہر واہی پاندھی کے قریب مقامی محقق پروفیسر ڈاکٹر عزیز کنگرانی نے کھیر تھر پہاڑوں میں ایسے پتھر دریافت کیے ہیں جن پر قدیم تہذیب موہن جو دڑو میں استعمال ہونے والی زبان ’انڈس اسکرپٹ‘ کے نشانات موجود ہیں۔

یہ خاص طرح کی اسکرپٹ صرف موہن جو دڑو میں استعمال کی جاتی تھی اور اسی تہذیب کے لوگ ہی اسے استعمال کرتے تھے۔

کھیر تھر پہاڑوں سے انڈس اسکرپٹ دریافت کرنے والے محقق عزیز کنگرانی—فوٹو: ڈان
کھیر تھر پہاڑوں سے انڈس اسکرپٹ دریافت کرنے والے محقق عزیز کنگرانی—فوٹو: ڈان

واہی پاندھی شہر تباہ شدہ تہذیب ’موہن جو دڑو‘ سے 200 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ موہن جو دڑو کی اسکرپٹ دوسرے علاقے سے ملی ہے۔

’انڈس اسکرپٹ‘ کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر عزیز کنگرانی کے مطابق سندھو تہذیب اور موہن جو دڑو پر تحقیق کرنے والے محقیق کے مطابق موہن جو دڑو کے لوگ کھیر تھر پہاڑوں کے راستے ہی دوسری دنیا تک جاتے تھے اور ان ہی راستوں کے ذریعے کاروبار کیا جاتا تھا۔

عزیز کنگرانی کے مطابق تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں کھیر تھر پہاڑوں سے میسوپوٹیمیا، بابل، سمیر اور مصر سمیت دیگر تہذیبوں تک راستہ جاتا تھا اور اسی راستے کے ذریعے موہن جو دڑو کے لوگ کاروبار کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: موہن جو دڑو رقص کا مرکز

عزیز کنگرانی کو ’انڈس اسکرپٹ‘ والے پتھر اسی راستے سے ملے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ پتھروں پر یہ تحاریر موہن جو دڑو کےلوگوں نے ہی نقش کی ہوں گی۔

موہن جو دڑو کا شمار قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے—فوٹو: اے ایف پی
موہن جو دڑو کا شمار قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے—فوٹو: اے ایف پی

پروفیسر عزیز کنگرانی کے مطابق اگرچہ انڈس اسکرپٹ کے حوالے سے تحقیق ہونا ابھی باقی ہے، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ ’سندھو تحریر‘ یا ’انڈس اسکرپٹ‘ کو 2600 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح کے درمیان رائج کیا گیا ہوگا۔

خیال رہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کی جانے والی تہذیب ’موہن جو دڑو‘ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ تہذیب 5 سے 7 ہزار سال پرانی ہے۔

محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے ’موہن جو دڑو‘ کی بنائی گئی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق یہ تہذیب تیسری صدی قبل مسیح میں آباد ہوئی۔

اس تہذیب کے تباہ ہونے کے حوالے سے بھی مستند تاریخ موجود نہیں ہے، تاہم زیادہ تر مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ تہذیب قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ ہوئی ہوگی۔

’موہن جو دڑو‘ نامی آثار قدیمہ آج بھی شمالی سندھ کے ضلع لاڑکانہ سے 28 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں۔

یہ آثار ابتدائی طور پر 1922 میں دریافت ہوئے، جس کے بعد اس پر مزید تحقیق ہوئی اور پہلی بار 1973 میں اس مقام پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی کانفرنس کا انعقاد کرایا۔

آج بھی دنیا بھر کے مؤرخین اس تہذیب کی تحقیق کے لیے ’موہن جو دڑو‘ کا رخ کرتے ہیں۔

موہن جو دڑو کے آثار آج بھی لاڑکانہ سے 28 کلو میٹر دوری پر موجود ہیں—فوٹو: اے ایف پی
موہن جو دڑو کے آثار آج بھی لاڑکانہ سے 28 کلو میٹر دوری پر موجود ہیں—فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں