امریکی قانون سازوں کا ڈونلڈ ٹرمپ سے کشمیر میں مداخلت کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2019
ٹم کین نے  11 ستمبر کے حملوں کی یاد میں منعقدہ تقریب کے بعد صحافیوں سے بات کی—فائل فوٹو: اے پی
ٹم کین نے 11 ستمبر کے حملوں کی یاد میں منعقدہ تقریب کے بعد صحافیوں سے بات کی—فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: بھارت کی جانب سے کشمیر کے الحاق کے یک طرفہ فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ حکومت پر زور دیا ہے کہ بھارت سے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دینے کا مطلبہ کیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورجینینا کے سابق گورنر اور امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے تعلقاتَ خارجہ کے رکن، سینیٹر ٹم کین نے کہا کہ ’یہ حکومت کامعاملہ ہے اور حکومت کو اس میں دلچسپی دکھانی چاہیے‘۔

دوسری جانب ورجینیا سے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے رکن کانگریس اور سوئٹزر کے سابق امریکی سفیر ڈان بیئر کا کہنا تھا کہ ’جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے میں اس سے بہت مایوس ہوں اور جو کچھ بھارتی وزیراعظم نریند مودی نے کیا میں اس سے سخت اختلاف کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری رہنماؤں سے رابطے کیے جائیں، امریکا کا بھارت سے مطالبہ

نریندر مودی کو دنیا میں ایک اور ظالم رہنما سے ملاتے ہوئے ڈان بیئر کا کہنا تھا کہ ’آپ نے دیکھا دنیا بھر کے ظالم رہنما یہی کررہے ہیں لوگوں کو تقسیم کرنا، ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف کرنا، ایک سے دوسرے کا مقابلہ کرنا‘۔

دونوں قانون سازوں نے 11 ستمبر کے حملوں کی یاد میں منعقدہ تقریب کے بعد صحافیوں سے بات کی۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان دونوں کی جانب سےکشمیر میں ریفرنڈم کے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان بیئر کا کہنا تھا کہ ’سالوں پہلے اس بات کا فیصلہ ہوگیا تھا کہ کشمیر میں مستقبل کا فیصلہ عوام کے ووٹ سے کیا جائے گا جو کہ نہیں ہوا۔

انہوں نے بھارت کی جانب سے کشمیر کے الحاق کے یک طرفہ فیصلے کو مسترد کردیا اور اسے نامناسب فوجی دراندازی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: امریکا کا گرفتار افراد کو رہا، حقوق بحال کرنے کا مطالبہ

دوسری جانب سینیٹر ٹم کین نے کہا کہ کشمیر ان اہم ترین مسائل میں سے ایک تھا جس پر امریکی قانون سازوں نے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس آکر حکومت کی توجہ دلائی۔

سینیٹر ٹم کین نے بتایا کہ سینیٹ کا رکن ہونے کی حیثیت سے انہوں نے امریکی حکومت سمیت متعدد حکومتی نمائندوں کے ساتھ ملاقات طے کر رکھی ہے تا کہ معاملات کو سمجھا جاسکے۔

یہ دونوں بیانات واشنگٹن میں اس بات کے بڑھتے ہوئے احساس کے عکاس ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہوسکتی ہے لیکن جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے وہ جمہوری نہیں، یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ بین الاقوامی روایات اورمعاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں