برطانیہ: گھریلو تنازعات میں ’قتل‘ کے واقعات میں اضافہ

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2019
رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد سے ہلاک ہونے والی خواتین کو مارنے والے زیادہ ترمرد تھے—فوتو: اے ایف پی
رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد سے ہلاک ہونے والی خواتین کو مارنے والے زیادہ ترمرد تھے—فوتو: اے ایف پی

برطانیہ میں گھریلو تشدد یا جھگڑوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں گزشتہ 5 برس کے مقابلے میں اضافہ حکام کے لیے تشویش کا باعث بنا گیا۔

دی گارجین میں شائع رپورٹ کے مطابق 43 پولیس اسٹیشنوں سے حاصل کردہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق گھریلو تشدد اور تنازعات میں کم از کم 173 مرد اور خواتین ہلاک ہوئیں جبکہ سال 2017 کے مقابلے میں سال 2018 میں 32 واقعات زیادہ رونما ہوئے۔

مزیدپڑھیں: آگاہی مہم: گھریلو تشدد کیا ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟

تفصیلات کے مطابق گھریلو تشدد یا تنازعات میں ہلاک والے تین تھائی واقعات میں خواتین کو مارنے والے شریک حیات، سابق شریک حیات یا خاندان کا کوئی فرد تھا۔

بتایا گیا کہ ’مارنے والے زیادہ ترمرد تھے‘۔

بی بی سی کی جانب سے فریڈم آف انفارمیشن کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 2014 میں 165، 2015 میں 160، 2016 میں 139 اور 2017 میں 141 گھریلو تشدد یا تنازعات کے باعث اموات ہوئیں۔

اس ضمن میں برمنگم سٹی یونیورسٹی کی پروفیسر ایلزبتھ یارڈلے نے کہا کہ ’گھریلو تشدد یا تنازعات میں ’قتل‘ کسی ارادے کے تحت نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: 2018 میں 20 ہزار انسانی اسمگلنگ، گھریلو تشدد کے کیسز رپورٹ

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کی خواہش ’کنڑول‘ کرنے کی ہوتی ہے اور اسی دوران گھریلو تشدد یا قتل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’حملہ آور متاثرہ شخص کو اس کے دوستوں ، اہلخانہ اور ملازمت سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ مخالفت میں اٹھنے والی آواز سے کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ آسانی سے کنٹرول حاصل کرلے۔

خیال رہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے ملکہ الزبتھ کی آئندہ تقریر میں گھریلو تشدد سے متعلق ازسرنو قانون سازی کا وعدہ کیا ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’گھریلو تشدد زندگیوں کو برباد اور عائلی نظام کو تقسیم در تقیسم کردیتا ہے اور ہم اس خوفناک جرم کو قابو کرنے کے لیے پرعزم ہیں‘۔

مزیدپڑھیں: کیا آپ کو معلوم ہے 'ایف آئی آر' کیسے درج کرائی جاتی ہے؟

برطانیہ کی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کی ترجمان کارلا میک لارین نے کہا کہ برطانیہ میں موجودہ بل تارکین وطن خواتین کے تحفظ کو فراہم کرنے میں قدرے ناکام ہے، ان کے لیے تشدد سے آزاد ماحول تک رسائی میسر نہیں اور اسی سبب وہ پرتسدد واقعات کے بارے میں رپورٹ کرنے سے قاصر ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی خواتین اس لیے بھی رپورٹ نہیں کرتیں کیونکہ ہوم آفس انہیں بھی گرفتار کرکے بے دخل کرے سکتا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں