سانحہ ساہیوال میں پوسٹ مارٹم کرنے والا میڈیکل بورڈ عدالت طلب

14 ستمبر 2019
سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاٹڑی پر فائرنگ کر کے چار افراد کو قتل کردیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاٹڑی پر فائرنگ کر کے چار افراد کو قتل کردیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ ساہیوال کے مقتولین کا پوسٹ مارٹم کرنے والے میڈیکل بورڈ کے تمام اراکین کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں طلب کر لیا ہے۔

حکومت نے سانحہ ساہیوال کے متاثرین کے پوسٹ مارٹم کے لیے 6 ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج ارشد حسین بھٹہ نے حکومتی پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ وہ آج(ہفتے کو) کو تمام ڈاکٹرز کی عدالت میں پیشی یقینی بنائیں۔

اس سے قبل دو عینی شاہدین عام شہریوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے اور قتل کے الزام میں گرفتار پولیس آفیشلز کو شناخت کرنے سے معذوری ظاہر کی۔

محمد خلیل، ان کی بیوی اور تین بچے اپنے پڑوسی ذیشان کے ہمراہ گاڑی پر جا رہے تھے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو روکا اور انہیں دہشت گرد مانتے ہوئے فائرنگ کردی، اس حملے میں خلیل کے دو بچے زندہ بچ گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال کے ملزمان پر فردِ جرم پھر عائد نہ ہوسکی

محکمہ انسداد دہشت گردی کے آفیشلز نے دعویٰ کیا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ ذیشان کا تعلق دہشت گرد گروپ سے ہے اور انہوں نے مقابلے میں تمام افراد کو ہلاک کردیا ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ اس وقت غلط ثابت ہوا جب دو بچوں نے عوام کے سامنے حقائق بیان کیے۔

ابتدائی طور پر اس مقدمے کی سماعت ساہیوال میں کی گئی لیکن متاثرہ خاندان کی درخواست پر 17 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے مقدمہ لاہور منتقل کردیا تھا جہاں درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں ساہیوال میں مقدمے کی پیروی میں مشکلات کا سامنا ہے اور ان کی سیکیورٹی کو بھی خطرات لاحق ہیں لہٰذا مقدمے کو ساہیوال سے لاہور منتقل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال جے آئی ٹی رپورٹ: خلیل اور اہلِ خانہ بے قصور، ذیشان دہشتگرد قرار

ذیشان کے بھائی اہتشام، خلیل کے بھائی جلیل اور دو بچوں نے عدالت کے سامنے اپنے بیان ریکارڈ کرا دیے تھے جہاں جلیل کا کہنا تھا کہ وہ موقع پر موجود نہیں تھے جبکہ بچوں نے کہا تھا کہ وہ عدالت میں موجود پولیس آفیشلز کو شناکت نہیں کر سکتے۔ اب تک تفتیشی عمل کے دوران 22 گواہ اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے کے جن آفیشلز پر قتل کا الزام ہے ان میں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں