'اسٹوڈنٹ ویزا میں تبدیلیوں میں بہت دیر کی گئی'

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2019
2012 سے 2020 کے دوران گریجویٹ ہونے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا — اے ایف پی/فائل فوٹو
2012 سے 2020 کے دوران گریجویٹ ہونے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا — اے ایف پی/فائل فوٹو

یونیورسٹی آف کیمبرج سے گزشتہ سال فرسٹ کلاس میں گریجویٹ ہونے والے سرور رحیم تولا کے پاس متاثر کن ڈگری ہونے کے باوجود برطانیہ میں انہیں نوکری ملنے کے مواقع انتہائی کم ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہیں ان کے پاس پورٹ کی وجہ سے زیادہ تر اداروں نے نوکری دینے سے انکار کردیا۔

ڈان اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ '70 سے 80 اداروں میں درخواست دی تھی تاہم سب نے مجھے میرے پاسپورٹ کی وجہ سے مسترد کردیا'۔

سرور رحیم تولا کا یہ مسئلہ ان کے لیے یا پاکستانی پاسپورٹ کے حامل دیگر افراد کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ: برطانیہ میں غیرملکی طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد دو سال تک ملازمت کی اجازت

2012 میں اس وقت کی برطانوی سیکریٹری خارجہ تھریسا مے کی جانب سے بیرون ممالک کے طالب علموں کے حوالے سے ویزا پالیسی میں تبدیلی متعارف کرائی گئی تھی جس کا مطلب تھا کہ برطانیہ کے سالانہ 4 لاکھ 50 ہزار غیر ملکی طالب علموں کو گریجویشن کے بعد 4 ماہ میں روز گار نہ ملنے پر ملک چھوڑ کر جانا ہوگا۔

اس محدود مدت میں روزگار حاصل کرنا ناممکن تھا کیونکہ زیادہ تر برطانوی ادارے ایسے افراد کو نوکری دینے سے گریز کرتے ہیں جنہیں ورک ویزا اسپانسر شپ کی ضرورت ہو۔

حال ہی میں برطانوی حکومت نے اس پالیسی کو واپس لیا تاکہ آئندہ سال سے آنے والے طالب علم گریجویشن کے بعد ایک یا 2 سال تک رک سکیں گے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جونسن کے مطابق 'یہ تبدیلی اس لیے کی گئی ہے کیونکہ سائنس میں ترقی اور تعلیمی فوائد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے جب تک برطانیہ دنیا بھر سے تعلیم اور کام کرنے کے لیے آنے والے بہترین افراد کے لیے کھلا نہ ہو'۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین نے برطانوی شہریوں کیلئے 'ویزا فری' کا قانون منظور کرلیا

جیسے ہی یہ خبر تعلیمی اداروں تک پہنچی تو جہاں وہاں خوشیاں منائی گئیں وہیں 2012 سے 2020 کے درمیان گریجویٹ ہونے والے افراد نے کہا کہ یہ بہت دیر سے ہوا ہے۔

لندن اسکول آف اکانومکس سے 2015 میں گریجویٹ ہونے والے اویم علوی کا کہنا تھا کہ 'یہ پیش رفت آنے والے طالب علموں کے لیے بہت اچھی ہے، سابقہ قانون غیر منصفانہ تھا، مجھے لگتا ہے کہ مجھے نوکری کی تلاش کے لیے کم وقت دے کر دھوکا دیا گیا ہے، میرے ساتھ گریجویٹ ہونے والے زیادہ تر پاکستانی طالب علم اتنے خوش قسمت نہیں تھے اور انہیں واپس گھر جانا پڑا تھا'۔

ان دونوں کی طرح کئی طالب علم ہیں جو روزگار کی تلاش میں جلد بازی کرنے پر مجبور تھے، کئی افراد کے لیے ان کی یونیورسٹی کا آخری سال ڈراؤنا خواب ثابت ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا کی طالب علم ایمن موبین کا کہنا تھا کہ 'یونیورسٹی کا آخری سال جہاں خود آپ کے لیے مشکل وقت ثابت ہوتا ہے وہیں بین الاقوامی طالب علموں کے لیے ورک پالیسی بھی الگ درد سر تھا'۔

انہوں نے نوروچ میں قائم اپنی نونیورسٹی سے لندن اور دیگر شہروں میں انٹرویو اور روزگار کی تلاش میں گھومنے کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے یاد ہے میں متعدد انٹرویوز میں گئی تھی جہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ اسپانسر ویزا نہیں دیتے جبکہ انہیں معلوم تھا کہ میں نہ برطانوی شہری ہوں اور نہ ہی یورپی'۔

یونیورسٹی آف لیورپول سے رواں سال گریجویٹ ہونے والی قرۃ العین اظہر کا کہنا تھا کہ روزگار تلاش کرنے کی ابتدائی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود نوکری کے حصول کے لیے حتمی مرحلے میں انکار کیا جانا 'اذیت ناک' ہے۔

مستقبل کے طالب علموں کے لیے نئے ویزا قواعد کا مطلب ہے کہ ان کی مشکلات کا اب خاتمہ ہوگا۔

برطانیہ کی یونیورسٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر الیسٹر جاروس کا کہنا تھا کہ 'گریجویشن کے بعد 2 سال کے ویزا کی پالیسی کے حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹیاں مہمات کر رہی تھی اور ہم اس پالیسی میں تبدیلی کو خوش آئند قرار دیتے ہیں جس سے ہمیں بین الاقوامی طالب علموں کی پہلی ترجیح بننے کا دوبارہ موقع ملے گا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں