مہینے بھر کا راشن ٹرالی میں بھر کر جب ہم بل کی ادائیگی کے لیے کیش کاؤنٹر پہنچے تو حساب کتاب کے بعد جو بل ہمیں بتایا گیا وہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں دگنا تھا۔

فوری طور پر ہم نے نسبتاً غیر ضروری یا اضافی سامان واپس کیا اور دوبارہ ٹوٹل کرنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کے باوجود بھی بل توقعات سے زیادہ ہی تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے صرف کھانے پینے کی ضروری اشیا خریدنے پر اکتفا کیا اور دوبارہ ٹوٹل کرنے کے لیے کہا۔ مگر بل تو اب بھی ٹرالی میں پڑے سامان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا۔

ہم نے شک کی کوئی بھی گنجائش باقی نہ رکھنے کے لیے ہر ایک چیز کو ایک بار پھر بار کوڈ اسکینر کے سامنے سے گزارنے کے لیے درخواست کی، لیکن حیران کن طور پر مشین سے بھی کوئی غلطی نہیں ہوئی۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے جب آخری بار گھر کا راشن خریدا تھا اس کے مقابلے میں اب اشیا کی قیمتیں تقریباً دگنی ہوچکی ہیں۔ مہنگائی نے ہم سب کو اور ہمارے گھریلو بجٹ کو شدید متاثر کیا ہے۔

مہنگی ہونے والی لگژری چیزوں کی خریداری تو ترک کی جاسکتی ہے لیکن کھانے پینے جیسی بنیادی اشیا تو انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں، ان کے بغیر کیسے گزارا ہوسکتا ہے؟ جب کھانا پکانے میں استعمال میں ہونے والی بنیادی چیزیں اتنی مہنگی ہوجائیں تو ایسے میں محدود بجٹ میں کس طرح اپنے گھر والوں کو اچھا کھانا کھلایا جاسکتا ہے؟

کھانے پکانے میں خاصی دلچسپی رکھنے والی سعیدہ کم یا محدود بجٹ میں باورچی خانہ سنبھالنے کے حوالے سے کئی مشورے دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میں سالن کے ساتھ پکائی جانے والی روٹیاں یا چاول تھوڑی زیادہ مقدار میں پکایا کرتی تھی کہ کہیں کم نہ پڑجائے، لیکن اب صرف اتنا ہی پکاتی ہوں جتنے افراد گھر میں موجود ہوتے ہیں، یوں کم سے کم کھانا ضائع ہوتا ہے۔ اگر کچھ کھانا بچ جاتا ہے تو اسے میں اگلے دن سائڈ ڈش کے طور پر پیش کرتی ہوں۔

مزید پڑھیے: ہر سال لاکھوں روپے کی بچت کا یہ طریقہ جانتے ہیں؟

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے جب آخری بار گھر کا راشن خریدا تھا اس کے مقابلے میں اب اشیا کی قیمتیں تقریباً دگنی ہوچکی ہیں۔ مہنگائی نے ہم سب کو اور ہمارے گھریلو بجٹ کو شدید متاثر کیا ہے۔

ایک چیز جس کی قیمت تقریباً دگنی ہوگئی ہے وہ ہے ٹن بند درآمد شدہ کھانا۔ جو ٹن 300 روپے کا ملتا تھا اب اس کی قیمت 525 روپے ہوچکی ہے۔ لہٰذا میں اب مشروم، مکئی، ریتون اور لوبیا ان ٹنوں کی صورت لینے کے بجائے تازہ لیتی ہوں۔ میں بنے بنائے رگو، پیزا اور پیستو ساس خریدنے کے بجائے انہیں تازہ اجزا سے اپنے گھر پر ہی تیار کرتی ہوں۔ دال چاول پکانے ہوں تو مناسب سائز کے چاول استعمال کرتی ہوں جبکہ بریانی اور پلاؤ کے لیے بڑے چاول استعمال کرتی ہوں۔ ان دونوں اقسام کے چاولوں کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔‘

قیمتوں میں اضافے کے بعد مریم نے بھی باورچی خانے سے جڑی عادتوں میں چند تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ مہنگی درآمد شدہ مصنوعات کے بجائے مقامی سستی متبادل اشیا کی تلاش میں رہتی ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح مقامی صنعتوں کو بھی مدد حاصل ہوگی۔ وہ براؤنی اور بازار میں ڈبے میں ملنے والے کیک مکس خریدنے کے بجائے گھر پر ہی کیک کا آمیزہ تیار کرتی ہیں۔ وہ زیادہ مقدار میں اسی صورت اشیا کی خریداری کرتی ہیں جب ضرورت ہو یا پھر جب وہ کچھ بچت کرلیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مریم نے یہ عادت بنا لی ہے کہ کھانا کم سے کم ضائع ہو، اور جو کھانا بھی بچ جائے وہ کسی بھی طرح استعمال میں آجائے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میں زیادہ مقدار میں کھانے پینے کا سامان خریدا کرتی تھی اور خریدا ہوا راشن 2 ماہ تک چل جاتا تھا، لیکن اب میں کھانے پینے کا صرف 2 ہفتے کا ضروری سامان خریدتی ہوں اور راشن ختم یا ضرورت پڑنے پر ہی مزید خریداری کرتی ہوں۔ البتہ میں بچت کی غرض سے بڑا سالم بریڈ خرید کر فریز کردیتی ہوں تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے استعمال کرتی رہوں۔‘

350 گرام کی معروف چاکلیٹ اسپریڈ کی قیمت ہوش ربا اضافے کے بعد 650 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ لارین کہتی ہیں کہ ’اس مہنگائی نے تو پریشان کر رکھا ہے۔ میں نے اپنے گھر پر کوکنگ چاکلیٹ اور ملائی کی مدد سے گھر پر ہی چاکلیٹ اسپریڈ بنانے کی کوشش کی، اور میں ایک مزیدار اسپریڈ تیار کرنے میں کامیاب بھی رہی۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ اس اسپریڈ کو میں 5 دنوں تک فرج میں اسٹور بھی کرسکتی ہوں۔‘

مزید پڑھیے: ہمارے پسندیدہ پھل اور سبزیاں، جو پہلے بالکل مختلف ہوتے تھے

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں گھر پر ہی کھانا پکانے کو ترجیح دیتی ہوں۔ لیکن جب وقت کی کمی ہو تو کسی ایسی جگہ سے کھانا منگواتی ہوں جہاں قیمتیں مناسب اور ذائقہ گھر جیسا ہو۔ حال ہی میں، میں نے ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹ سے کھانا منگوایا لیکن مجھے ان کی قیمتیں کافی غیر مناسب محسوس ہوئیں لہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب جب بھی فاسٹ فوڈ کھانے کی طلب ہوگی تو میں گھر پر ہی اسے بنا کر کھالوں گی۔‘

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کس طرح تنگ حالات کے باوجود روزانہ اپنے کھانے سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

1: اپنا کچن گارڈن بنائیں۔ کم خرچ میں تازہ، پوری طرح سے قدرتی اور صحت بخش سبزیاں حاصل کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ ایسے بہت سے پھل اور سبزیاں ہیں جنہیں آپ اپنی مرضی کے مطابق جتنا چاہیں باآسانی اگا سکتے ہیں۔ جیسے لیموں، ہری مرچیں، ٹماٹر، بینگن، مختلف اقسام کی لوکی، پپیتا اور کیلے سمیت کئی پھل اور سبزیاں اگائی جاسکتی ہیں۔ یہاں تک کہ کھانا پکانے میں روزانہ استعمال ہونے والی سبز مرچیں، دھنیا اور پودینہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ماضی میں سبزی فروش کبھی مفت میں سبزیوں کے اوپر ڈال کر دے دیا کرتے تھے مگر اب تو ان کے دام بھی اس قدر بڑھ گئے کہ ماہانہ اخراجات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اپنی کھیتی سے نہ صرف پیسوں کی بچت ہوتی ہے بلکہ اس طرح آپ گندے پانی میں اُگی ہوئی سبزیاں خریدنے سے بھی بچ جاتے ہیں اور کراچی میں ایسی سبزیوں کی فروخت کافی عام پائی جاتی ہے۔ فیس بک پر توفیق پاشا کا ایک پیج Bhajitable Garden ہے جو سبزیوں کو اگانے کے حوالے سے معلوماتی چارٹس اور ٹیٹوریل یا تربیت فراہم کرتا ہے۔

2: باورچی خانے میں استعمال ہونے والی لگژری چیزوں کا استعمال کم سے کم کردیجیے، مثلاً ایسی مہنگی ساسز جن کا استعمال کافی کم ہوتا ہے، ان کی خریداری سے گریز کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ سافٹ ڈرنک جیسی غیر صحت بخش کھانے پینے کی اشیا کا استعمال ترک کردیجیے۔ اگر باورچی خانے کے امور ملازمین کے حوالے ہیں تو باورچی کے امور پر گہری نظر رکھیں، اس طرح آپ ماہانہ اخراجات میں نمایاں حد تک کمی لاسکتے ہیں۔

3: کھانا ضائع ہونے سے بچائیں۔ آپ بچ جانے والے کھانے سے کوئی نئی ڈش تیار کرسکتے ہیں۔ مثلاً بچ جانے والے بیک آلو سے آپ آلو کی بجھیا بنا سکتے ہیں۔ گھر میں موجود افراد کی تعداد کو نظر میں رکھتے ہوئے کھانا پکائیں تاکہ ہر ایک کو مطلوبہ غذائیت حاصل ہو اور کھانا بھی ضائع نہ ہو۔ اگر آپ مرغی پکا رہے ہیں تو پوری کی پوری تازہ کٹی ہوئی یا پیکٹ میں جمی ہوئی حالت میں ملنے والی مرغی پکانے کے بجائے یہ دیکھیے کہ گھر کے افراد ایک وقت میں کتنی مرغی استعمال کرتے ہیں، پھر اس حساب سے مرغی کی بوٹیاں الگ کردیں اور انہیں پکائیں جبکہ بقیہ مرغی کو محفوظ کردیجیے تاکہ اگلی بار کے لیے بھی مرغی کا گوشت دستیاب ہو۔

4: تیل، پتی، اور چینی جیسی روزمرہ میں استعمال ہونے والی اشیا کے استعمال میں لاپروائی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ہم اکثر ان چیزوں کو ضرورت سے زیادہ استعمال کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے ان چیزوں کا ذخیرہ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ تیل کا کم سے کم استعمال صحت کے لیے اچھا بھی ہے جبکہ چینی کے استعمال میں کمی یا اس کو ترک کرنے کے فوائد جتنے گنیے اتنے کم ہیں۔

5: بریانی اور قورمہ مصالحے گھر پر ہی تیار کریں۔ گھریلو استعمال کے لیے دہی اپنے گھر پر ہی جمائیں اور درآمد شدہ مہنگی ملائی کے بجائے گھر پر تیار ہونے والی ملائی کا استعمال کریں۔ اسی طرح بچوں کے لیے پراسس شدہ گوشت سے تیار ہونے والے ساسیج اور نگٹس کے بجائے گھر پر ہی بچوں کے لیے اسنیکس بنائیں، کیونکہ یہ صرف مہنگے ہی نہیں بلکہ اس میں غذائیت بھی کم ہوتی ہے۔

6: یہ اندازہ کرلیجیے کہ آپ کو کون سی چیز کتنی مقدار میں خریدنی ہے۔ اگر آپ کا کنبہ بڑا ہے تو گندم، چاول، دالوں، کوکنگ آئل اور چائے جیسی چیزوں کو ایک یا اس سے زائد ماہ کے لیے خرید آپ کافی پیسے بچا سکتے ہیں۔ پھل اور سبزیاں، جو زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی، اس کی خریداری ہفتے میں ایک بار کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف چھوٹے کنبے والے زیادہ سامان خریدنے کے بجائے دن یا ہفتے کے لیے سامان خرید کر اپنے پیسے بچا سکتے ہیں۔

7: مقامی اشیا کی خریداری کریں۔ غیر موسمی درآمد شدہ پھل اور سبزیوں کے مقابلے میں مقامی سطح پر دستیاب موسمی پھل اور سبزیاں مناسب داموں میں خریدی جاسکتی ہیں۔ آپ آم، ٹماٹر اور مٹر جیسے پھل اور سبزیوں کو ان کے موسم میں سستے داموں خرید کر فرج میں ذخیرہ کرسکتے ہیں اور جب تک قابل رہیں تب تک استعمال کرتے رہیے۔

8: قیمتوں کا موازنہ کریں۔ اگر 2 مختلف برانڈ کی ایک ہی چیز اسی مقدار اور معیار پر مختلف قیمت پر مل رہی ہو تو آپ کم قیمت والی چیز کا انتخاب کریں۔ اگر کوئی چیز خریدنا لازمی نہیں اور کافی زیادہ مہنگی بھی ہو، مثلاً 1200 روپے کا چپس کا پیکٹ تو ایسی چیزوں کی خریداری سے گریز کریں۔

مزید پڑھیے: وہ سبزیاں جو درحقیقت پھل ہیں

9: غذائیت کے حصول کی خاطر مہنگی کھانے پینے کی اشیا یعنی سپرفوڈ کے بجائے ہم ایسی ہی غذائیت کی حامل کم داموں والی کھانے پینے کی چیزیں خرید سکتے ہیں۔ پھل کافی زیادہ مہنگے ثابت ہوسکتے ہیں لہٰذا ہم روزانہ سبزی کے استعمال سے پھلوں کی غذائیت کا توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ کھجور اور خوبانی اور منقے یا کشمش جیسے خشک میوہ جات طویل عرصے تک قابلِ استعمال رہتے ہیں جبکہ صرف 2 کھجور یا کشمش یا منقے سے بھرا ایک چمچ ایک پھل کے برابر غذائیت فراہم کرتا ہے۔

10: اپنی کھانے پینے کی عادتوں میں توازن قائم رکھیں۔ ہم گوشت کھانے والی قوم ہیں لہٰذا اپنے کھانے پینے کی عادت میں گوشت سے بنے کھانوں کے ساتھ ساتھ متوازن غذا کا اہم حصہ تصور کی جانے والی سبزیوں اور دال سے بنے کھانوں کا بھی اتنا ہی استعمال شامل رکھیں، چونکہ گوشت مہنگا اور اس کے مقابلے میں سبزیاں اور دالیں سستی پڑتی ہیں اس لیے آپ کو چند روپے کی بچت بھی ہوجائے گی۔ ہمیں پروٹین کی غذائیت حاصل کرنے کے لیے روز گائے، بھیڑ یا بکرے کا گوشت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، دالیں اس کا ایک اچھا متبادل ہیں اور ہم ماش، مسور، لوبیا اور چنے جیسی کئی اقسام کی دالوں کو اپنے کھانوں میں شامل رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دالوں کی قیمتیں بھی بہت کم نہیں، مگر ہاں گوشت کے مقابلے میں فرق ضرور ہے۔

11: سادہ لیکن غذائیت سے بھرپور کھانا کھائیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف درآمد شدہ اور مہنگی کھانے پینے کی اشیا سے اپنی صحت بخش غذا حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ مثلاً، اگر ہمیں کاربو ہائیڈریٹ کی ضرورت ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فینسی بریڈ، جو اور سیریل ہی خریدیں بلکہ روٹی اور چاول بھی یہی غذائیت ہمیں بخشتے ہیں، اور آٹا تو ویسے بھی ہر گھر میں کھانے کا ایک اہم جزو ہے۔ فیٹ یا چکنائی کے لیے ہمیں ایکسٹرا ورجن زیتون یا کھوپرے کا تیل خریدنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ غذائی ضرورت ہمارے گھر کے کھانے میں استعمال ہونے والا عام ویجیٹیبل آئل بھی پوری کرسکتا ہے۔ اگر ہم چلغوزے جیسے مہنگے خشک میوہ جات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کیا ہوا ہم مونگ کھالیں گے جو کافی سستی بھی پڑتی ہے۔ روزانہ ایک چمچ مونگ پھلی کھانے سے طویل عرصے تک صحت مند رہنے کے لیے مطلوبہ غذائیت حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہ مضمون 15 ستمبر 2019ء کو ڈان کے اہؤس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں