شاہ زیب قتل کیس: ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل سماعت کیلئے منظور

17 ستمبر 2019
شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان شاہ رخ جتوئی، نواب سراج علی اور غلام مرتضی لاشاری کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین اور سندھ حکومت سے جواب طلب کر لیے۔

یاد رہے کہ نوجوان شاہ زیب کو دسمبر 2012 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

7سال سے جاری اس مقدمے میں ملزمان شاہ رخ جتوئی، نواب سراج علی اور غلام مرتضیٰ کو موت کی سزا سنائی گئی تھی لیکن بعدازاں شاہ رخ اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا تھا جبکہ دیگر ملزمان کی سزا کو برقرار رکھا گیا تھا۔

ملزمان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت کے لیے منظور کر لیا۔

جسٹس مقبول بابر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فریقین اور سندھ حکومت کو نوٹسز جاری کر دیے۔

شاہ زیب قتل کیس کا پس منظر

دسمبر 2012 میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مقدمے کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا۔

بعد ازاں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 30 جون 2013 کو شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف شاہ رخ جتوئی کی نظرثانی اپیل

مجرموں نے 2013 میں ہی سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا تھا۔

شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔

30 دسمبر کو سیشن کورٹ نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر مجرموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 2017 کو وکلا، انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ نے یکم فروری 2018 کو شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 مجرموں کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے مجرموں کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک وکیل مقرر کرنے کی ہدایت

اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پولیس کو مجرموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے تینوں مجرموں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک مجرموں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی دیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نذر اکبر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مجرموں کے خلاف کیس کی سماعت کی تھی اور 11 مارچ کو فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

13 مئی 2019 کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عالیہ نے 2 مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جبکہ دیگر 2 مجرموں کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دی گئی سزا ناقابل معافی ہے لٰہذا سزائے موت عمر قید میں تبدیل کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں