العزیزیہ کیس: جج ارشد ملک کا بیان حلفی نواز شریف کی درخواست میں شامل

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2019
نواز شریف العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں 7 سال قید کاٹ رہے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
نواز شریف العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں 7 سال قید کاٹ رہے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کرپشن کیس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی کی مصدقہ نقل کو شامل کرلیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس اس وقت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی، اس کے علاوہ عدالت نے ان پر ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا، جس کے بعد سابق وزیراعظم کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔

نواز شریف کی جانب سے احتساب عدالت کے جج کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، جس پر آج جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف کی سزا کو 7 سے 14 سال کرنے سے متعلق بھی درخواست کی سماعت ہوئی۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں مریم اورنگزیب، راجا ظفر الحق، ایاز صادق اور پرویز رشید بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے ارشد ملک کی جج کے عہدے پر رہتے ہوئے متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد وضاحت کے لیے پیش کی گئی پریس ریلیز کی 'مصدقہ نقل' کی درخواست کی، جس پر بینچ نے ریمارکس دیے کہ دونوں چیزیں اس فائل میں موجود ہیں جو خواجہ حارث کو فراہم کی گئیں۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ فائل میں نیب کے ساتھ ساتھ نواز شریف کے وکیل کی جانب سے فراہم کردہ ثبوت بھی شامل تھے لہٰذا خواجہ حارث ان دستاویز کو اپنے ریکارڈ سے ملا کر دیکھ لیں۔

سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ پیپر بک سے کچھ دستاویزات غائب ہیں، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی دستاویز موجود نہیں تو وکیل اسے بعد میں جمع کرواسکتے ہیں۔

اس موقع پر عدالت کی جانب سے خواجہ حارث سے استفسار کیا گیا کہ اس اپیل پر کتنے عرصے میں بحث مکمل کرلیں گے؟ جس پر جواب دیا گیا کہ 3 ماہ میں اسے مکمل کرلیا جائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے سابق جج ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی کی کاپی خواجہ حارث سمیت نیب کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مذکورہ کیس کی سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، جج ارشد ملک

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی اس سزا پر سوالات اس وقت اٹھائے تھے جب رواں سال کے اوائل میں سابق وزیراعظم کو سزا سنانے والے اس وقت کے جج ارشد ملک کا ایک ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تھا۔

یہ ویڈیو نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے جاری کی گئی تھیں، جس میں ارشد ملک نے مبینہ طور پر یہ اعتراف کیا کہ نواز شریف کو سزا دینے کے لیے انہیں 'بلیک میل' کیا گیا۔

مریم نواز جو اس وقت نیب کی حراست میں ہیں انہوں نے ان ویڈیوز کو پیش کرتے ہوئے نواز شریف کی سزا معطلی کا مطالبہ کیا تھا۔

ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد ہی ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور انہیں لاہور ہائی کورٹ بھیج دیا گیا تھا، جہاں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں