ماہرین کا نمرتا چندانی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2019
نمرتا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متعدد خامیوں اور اہم معلومات اور حقائق شامل نہیں—تصویر: فیس بک
نمرتا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متعدد خامیوں اور اہم معلومات اور حقائق شامل نہیں—تصویر: فیس بک

کراچی میں محکمہ صحت کے میڈیکو لیگل شعبے کے ماہرین اور حکام نے میڈیکل کی طالبہ نمرتا مہر چندانی کے ابتدائی پوسٹ مارٹم پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے معائنے کی تفصیلات اور مستند ہونے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

مذکورہ ماہرین کے مطابق اس رپورٹ میں متعدد خامیوں اور اہم معلومات اور حقائق شامل نہیں۔

میڈیکو لیگل شعبے سے وابستہ ایک سینئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا کہ تصویر میں دکھائی دینے والے پھندے کے نشانات دوپٹے کی وجہ سے نہیں بلکہ ’کسی رسی نما چیز کے ہیں‘۔

ایک اور ماہر کے مطابق پوسٹ مارٹم میں کہا گیا کہ یہ خود کشی تھی لیکن پھندے کے نشان گلہ دبانے کے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: لاڑکانہ: ڈینٹل کالج کی طالبہ کی ہاسٹل میں پراسرار موت

معائنہ رپورٹ کے مطابق طالبہ کی موت اور پوسٹ مارٹم کے عمل کے درمیان 11 سے 12 گھنٹے کا فرق تھا لیکن تصویر میں نظر آنے والے معلومات 24 گھنٹے پرانی ہیں کیوں کہ لاش بوسیدہ ہونے کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے۔

ماہرین کے مطابق لاڑکانہ میں ہوئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں لاش کی بوسیدگی کا کوئی ذکر نہیں اس کے بجائے یہ لکھا گیا کہ پوسٹ مارٹم کے وقت لاش ’تازہ‘ تھی۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ ایک 5 فٹ قد کی لڑکی نے کس طرح اپنے آپ کو 15 فٹ اونچائی پر لگے پنکھے سے ٹانگ لیا۔

علاوہ ازیں میڈیکو لیگل ڈپارٹمنٹ میں حکام کے کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ نمرتا کے پوسٹ مارٹم کے لیے ایک مکمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاتا یا اس کے لیے لاش کو کراچی منتقل کردیا جاتا۔

ذرائع کے مطابق یہ بات معلوم ہوئی کہ سندھ کے دیگر علاقوں میں باقاعدہ میڈیکو لیگل ڈاکٹرز ہی دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: میڈیکل کی طالبہ کی پراسرار موت، سندھ حکومت کی عدالتی تحقیقات کیلئے درخواست

انہوں نے انکشاف کیا کہ سندھ بھر میں میڈیکو لیگل شعبے میں اصلاحات لانے اور پورے صوبے میں پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں ایک پرفارما تیار کرنے کے لیے کمیٹی کام کررہی ہے۔

دوسری جانب ڈان کی حاصل کردہ نمرتا چندانی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کو ’ہسٹوپیتھولوجی، کیمیکل اور ریڈیالوجی کی رپورٹس موصول ہونے تک محفوظ رکھا گیا ہے‘۔

نمرتا کی پراسرار موت

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں بی بی آصفہ ڈینٹل کالج (بی ایس ڈی سی) میں بیچلرز ان ڈینٹل سرجری (بی ڈی ایس) کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا مہر چندانی ہاسٹل کے کمرے میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔

اس موت پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ طالبہ نے خودکشی کی تاہم اہل خانہ کی جانب سے خودکشی کی بات کو مسترد کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

قبل ازیں یونیورسٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو اس واقعے کی اطلاع دوپہر 2 بج کر 30 منٹ پر ملی جس کے بعد وائس چانسلر، رجسٹرار، بی اے ڈی سی اور چاند کا میڈیکل کالج کے پرنسپلز پولیس افسران کے ہمراہ فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور نمرتا چندانی کو این آئی سی وی ڈی کے شعبہ حادثات لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ یونیورسٹی: طالبہ کی مبینہ خودکشی پر آئی جی کا نوٹس

اس ضمن میں وائس چانسلر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق گردن کے ارد گرد زخموں کے نشان کے سوا جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں تھا۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں خود ڈاکٹر ہوں اور میں نے بھی لاش کا معائنہ کیا ہے جس کے مطابق طالبہ کے گلے پر جس طرح کے نشان پائے گئے ہیں وہ خود کشی کے نہیں، اس کے علاوہ اس کی کلائیوں پر بھی زبردستی پکڑے جانے کے نشانات موجود تھے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جس لڑکی نے سب سے پہلے نمرتا کی لاش دیکھی اس کے مطابق اس کے گلے میں دوپٹہ تھا جبکہ گلے پر جو نشان ہے وہ تار کا ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ‘نمرتا کی لاش دوپہر 2 بجے ملی لیکن کالج کی انتظامیہ نے خود بتایا کہ ساڑھے 12 بجے وہ مٹھائی بانٹنے آفس میں آئی تھی تو آخر ڈیڑھ گھنٹے میں ایسا کیا ہوا؟’

بعد ازاں اس معاملے پر اہل خانہ کی جانب سے معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت سندھ نے معاملے کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کروائی تھی۔

چناچنہ سندھ حکومت نے 18 ستمبر کو باضابطہ طور پر نمرتا چندانی کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لیے عدالت سے جوڈیشل انکوائری کی درخواست کردی تھی۔

دوسری جانب طالبہ ہلاکت کی تفتیش کے سلسلے میں 2 ساتھی طالبعلموں سے بھی پوچھ گچھ کی جارہی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں