'نیب نے 22 ماہ میں برآمد کیے گئے 71 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروادیے'

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2019
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب اجلاس کی صدارت کی
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب اجلاس کی صدارت کی

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے اپنے ادارے کے آپریشن ونگ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 22 ماہ سے زائد عرصے میں 71 ارب روپے برآمد کیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ' گزشتہ 22 ماہ کے تقابلی اعداد و شمار نیب کی بہترین کارکردگی کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ بیورو نے 71 ارب روپے برآمد کیے اور انہیں قومی خزانے میں جمع کروادیا جو ایک ریکارڈ کامیابی ہے'۔

ترجمان نیب نے چیئرمین کے بیان کے حوالے سے بتایا کہ بیورو آہنی ہاتھوں سے 'احتساب سب کے لیے' پالیسی کو اپناتے ہوئے کرپشن کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔

مزید پڑھیں: کیا نیب واقعی ایک غیر جانبدار ادارہ ہے؟

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ احتساب کا ادارہ موثر قومی انسداد بدعنوانی حکمت عملی کے ذریعے کرپشن کی جڑیں ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی اصل توجہ وائٹ کالر کرائمز پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال شکایات، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز کے اعداد و شمار میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا۔

اپنی بات جو جاری رکھتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ نیب نے 22 ماہ کے دوران متعلقہ احتساب عدالتوں میں 600 کرپشن کیسز بھی دائر کیے، جو اس وقت زیرسماعت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ' معروف قومی اور بین الاقوامی تنظیموں جیسے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، ورلڈ اکنامک فارم، پلڈاٹ اور مشعال پاکستان نے معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کے لیے نیب کی کوششوں کو سراہا جبکہ گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن اور گیلپ سروے کے مطابق 59 فیصد لوگوں نے نیب پر اعتماد کا اظہار کیا ہے'۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ نیب نے سینئر سپروائزری افسران کے تجربے اور اجتماعی دانشمندی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمپائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) کے نئے تصور کو متعارف کروایا ہے، سی آئی ٹی ایک ڈائریکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر، تفتیشی افسر اور ایک سینئر وکیل پر مشتمل ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے ڈبل شاہ فراڈ کے ہزاروں متاثرین کو کروڑوں روپے لوٹا دیے

دوران اجلاس چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ 'یہ کام کرنے کے لیے صرف معیار فراہم کرنا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نیب کی کارروائی میں کسی بھی فرد کی مداخلت نہ ہو'۔

نیب کے سربراہ کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں بیورو نے دور جدید کی سہولیات کی حامل فرانزک لیب قائم کی، جو ڈیجیٹل فرانزک، دستاویز اور فنگرپرنٹ کا جائزہ لینے کی سہولیات فراہم کر رہی اور ان سہولیات سے ہرلحاظ سے انکوائری اور انویسٹی گیشن کا معیار مزید بہتر ہورہا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mansoor ali Sep 21, 2019 12:24pm
Please also tell us how many culprits go to Jail, after returning the money why corrupt culprits are free ? this is not real accountability, corrupt culprits not earn this money by alone, whole system (other employees of that institute) support them by signing the paper work, take strict action against supporting staff, once main culprits and supporting staff got to jail for long time, it will be lesson for society....