پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ سے قبل ایک اور کثیر الجماعتی کانفرنس کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2019
جے یو آئی-ف جماعتوں کے اختلافات عوام تک لے جانے کے بجائے اسے ختم کرنے کے لیے اجلاس منعقد کرسکتی تھی — فوٹو: ڈان نیوز
جے یو آئی-ف جماعتوں کے اختلافات عوام تک لے جانے کے بجائے اسے ختم کرنے کے لیے اجلاس منعقد کرسکتی تھی — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حکومت مخالف لانگ مارچ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی عدم شرکت کے فیصلے پر کی جانے والی تنقید کے بعد پی پی پی نے مشترکہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف احتجاج کے بارے میں بحث کے لیے ایک اور کثیر الجماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کردیا۔

یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب جے یو آئی-ف کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تھا، تاہم ان کی جانب سے انکار پر جمعیت علمائے اسلام کے کچھ رہنماؤں نے پی پی پر الزامات لگا دیے تھے۔

جس پر پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری کی جانب سے جے یو آئی-ف کی تنقید کو 'نامناسب اور افسوسناک' قرار دیا گیا تھا، تاہم اس بیان کے بعد جے یو آئی (ف) کی جانب سے پی پی سے رابطہ کیا گیا۔

نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنماؤں کو مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے منعقد کی گئیں تمام گزشتہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کرنے والی اپوزیشن جماعتوں کے خلاف اس طرح کے 'قابل اعتراض' بیانات نہیں دینے چاہیے تھے۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ میں شرکت سے انکار، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی-ف میں تلخیاں پیدا ہوگئیں

ان کا کہنا تھا کہ 'مشاورت یا اجلاس کے ایک اور دور کے بغیر پی پی پی پر تنقید کی کوئی وجہ نہیں'۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے لانگ مارچ پر اپنائے گئے پیپلز پارٹی کے موقف پر کھل کر تنقید کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ پی پی پی ڈیل کے لیے مخصوص قوت کو خوش کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'پیپلز پارٹی نے دہرا معیار اختیار کر رکھا ہے، ایک طرف وہ ہمارے لانگ مارچ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہیں تو وہیں دوسری جانب وہ ہمارے احتجاج کی اخلاقی و سیاسی حمایت بھی کر رہے ہیں'۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جب پیپلز پارٹی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہی تھی تو ان کے رہنما نے مولانا فضل الرحمٰن سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مہم کا آغاز کرنے کی درخواست کی تھی۔

اس معاملے پر نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) سندھ کے اراکین نے پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن سے رابطہ کیا جبکہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور جے یو آئی-ف کے رہنما اکرم درانی نے ان سے خود ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ جے یو آئی رہبر کمیٹی کی صدارت کر رہی، لہٰذا یہ 'جماعتوں میں اختلافات کو عوام تک لے جانے کے بجائے اسے ختم کرنے کے لیے اجلاس منعقد کرسکتی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن جنہوں نے کثیر الجماعتی کانفرنس کی میزبانی کی تھی وہ ایک اور کثیر الجماعتی کانفرنس منعقد کرسکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، پیپلز پارٹی اب بھی حکومت مخالف احتجاج کے لیے تیار ہے کیونکہ ہم نے بھی موجودہ حکمرانوں کے خلاف جانے کا فیصلہ کر رکھا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد لاک ڈاؤن کیلئے جے یو آئی کو مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل

دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) اور پی پی پی میں تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ اور غیر معینہ مدت تک کے لیے دھرنے میں شرکت سے انکار کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ کے خلاف مخصوص بیان سے ناراض ہے۔

یاد رہے کہ 19 ستمبر کو اسلام آباد میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ 'میں دھرنا سیاست نہیں کرنا چاہتا، میں بینظیر بھٹو شہید کی سیاست کرنا چاہتا ہوں، آپ کیوں مجھے مولوی بنانا چاہتے ہیں'۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی جے یو آئی (ف) کے لانگ مارچ کی اخلاقی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ نے اپنی شرکت کے فیصلے سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کے سامنے متعدد سوالات اٹھائے تھے تاہم مجھے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا'۔

تبصرے (0) بند ہیں