توہین مذہب کے کیس میں 18 سال جیل میں رہنے والا شخص بری

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2019
عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے پی پی سی کی دفعہ 295-سی کا سامنا کرنے والے ملزم کے خلاف عدم شواہد کی بنا پر فیصلہ سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے پی پی سی کی دفعہ 295-سی کا سامنا کرنے والے ملزم کے خلاف عدم شواہد کی بنا پر فیصلہ سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے کیس میں 2002 میں سزائے موت پانے والے اور 18 سال تک مسلسل سلاخوں کے پیچھے رہنے والے شخص کو بری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی کا سامنا کرنے والے ملزم کے خلاف عدم شواہد کی بنا پر فیصلہ سنایا۔

دوران سماعت عدالت کو معلوم ہوا کہ ملزم کی جانب سے لکھے گئے ان خطوط کے بارے میں استغاثہ بنیادی شکوک کو ثابت کرنے میں ناکام رہی جو حسن کے خلاف توہین مذہب کے الزام کی بنیاد بنے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ خطوط انہوں نے خود لکھے تھے۔

پنجاب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل (اے پی جی) محمد امجد رفیق نے حسن کے خلاف کیس کو لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

اے پی جی نے وضاحت دیتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ اسمٰعیل قریشی نامی سینیئر وکیل کو لکھے گئے خطوط سے لگائے گئے الزامات کی وجہ سے وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے سینیئر وکیل کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

وکیل نے حکومت سے استدعا کی تھی کہ قانون سے سزائے موت ختم کی جائے اور کہا تھا کہ سزائے موت صرف سنگین جرائم میں ہی سنائی جانی چاہیے۔

نتیجتاً شرعی عدالت نے 1991 میں حکومت کو 30 اپریل 1991 تک قوانین میں ترمیم کرنے کے احکامات دیے تھے۔

اے پی جی کا کہنا تھا کہ ملزم نے حسن مرشد مسیح کے نام سے ایڈووکیٹ قریشی کو 1998 میں 5 خطوط لکھے تھے، 'پہلا خط وکیل نے بے حرمتی پر مبنی ہونے پر جلا دیا تھا تاہم انہیں بعدازاں مزید خطوط ملے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بعد ازاں ایڈووکیٹ کو عمر نواز بٹ کی جانب سے ایک اور خط ملا جس میں انہیں بتایا گیا کہ وہ جانتے ہیں کہ خطوط لکھنے والا کون ہے اور کس نے توہین مذہب کا جرم کیا ہے اور اس خط میں اس کا اصل نام اور پتہ کے ساتھ اس کے قومی شناختی کارڈ کی کاپی بھی موصول ہوئی تھی، عمر نواز بٹ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے خطوط کی کاپیاں اس وقت کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی بھیجی ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ایڈووکیٹ قریشی نے لاہور کے اقبال ٹاؤن تھانے میں حسن کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی، ابتدائی طور پر پولیس نے مزاحمت کی اور کہا کہ وہ اس معاملے پر علما کے بورڈ کی مشاورت طلب کریں گے کہ گویا یہ خطوط توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں کہ نہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی اپیل سماعت کیلئے مقرر

وکیل کے مطابق جب انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تو پولیس نے حسن کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی کے تحت 31 مارچ 1999 میں توہین مذہب کے الزامات پر مقدمہ درج کیا اور پھر ملزم کی شیخوپورہ کے علاقے کوٹ عبدالملک میں رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔

اے جی پی کا کہنا تھا کہ '21 مئی 2001 کو ملزم نے اسٹیل فیکٹری جہاں وہ کام کرتا تھا، کے منیجر محمد وسیم کے سامنے جرم کرنے کا اعتراف کیا، وسیم اور اس کے دوست محمد نوید کو ملزم کا 'ماورائے عدالت اعترافی بیان' ایک کاغذ پر حاصل ہوا جس کے بعد وہ اسے تھانے لیکر گئے جہاں اس کو گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 28 مئی 2001 کو لکھائی کے ماہر نے ملزم کی تحریر کا معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ملزم کے اعترافی بیان کی لکھائی سوالات اٹھائے گئے خط کی لکھائی سے مماثلت رکھتی ہے۔

بعد ازاں لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج نے حسن کو مجرم قرار دیتے ہوئے اسے سزائے موت سنائی اور لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے حسن کو 'ماورائے عدالت اعترافی بیان' اور عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا۔

واضح رہے کہ لکھائی کے ماہر کی رپورٹ قانون کے تحت کمزور ثبوت کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور کیس کے کوئی براہ راست گواہ نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کے پاس ملزم کو الزامات سے بری کرنے اور رہا کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔

اب تک ملزم لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائے موت اور 10 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد سے قید تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 31 اکتوبر 2018 کو توہین مذہب کے الزامات میں سزائے موت کا سامنا کرنے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی کسی کو اجازت نہیں ہے لیکن جب تک کوئی گناہ گار ثابت نہ ہو سکے تو بلا امتیاز معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ’ ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک استغاثہ ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر مدعی کی جانب سے ملزم پر لگائے گئے الزمات پرعدالت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں