ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2019
شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا—اسکرین شاٹ
شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا—اسکرین شاٹ

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے ایل این جی کیس کی سماعت کی، جہاں ملزمان کو پیش کیا گیا۔

دوران سماعت قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایک مرتبہ پھر شاہد خاقان عباسی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی، جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ اس مرتبہ ریمانڈ نہیں دوں گا۔

یاد رہے گزشتہ سماعت میں جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے تھے کہ 'عدالت آخری مرتبہ ریمانڈ میں توسیع کر رہی ہے' اور اس کے بعد مزید جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جائے گا۔

دورانِ سماعت سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملزم گرفتار پہلے کرتے ہیں کیس بعد میں بناتے ہیں، یہ تماشہ ہے کہ 2 افسران کو فون کر کے دھمکایا جا رہا ہے اور وعدہ معاف گواہ بننے کا کہا گیا ہے، یہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہے۔

اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے 9 صفحات پر مشتمل جواب جمع کروایا جس میں کہا گیا کہ نیب نے مجھ سے 8 کیسز سے متعلق تفتیش کی جس میں منی لانڈرنگ، اثاثہ جات اور بے نامی جائیدادیں شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں ایل این جی پلانٹس کے مالک گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایل این جی معاہدے کے ذریعے پاکستان کے ایک کھرب روپے بچائے، میرا جرم یہی ہے کہ میں نے قومی خزانے کے اربوں روپے بچائے۔

اپنے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نیب نے ان سے اثاثوں، آمدن، اخراجات اور بینک اکاؤنٹس کا 20 سالہ ریکارڈ مانگا جبکہ 2 دہائیوں پر محیط مالیاتی تفصیلات فراہم کرنا اکثریت کے لیے ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے لیے ثبوت کا حصول ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اصل مقصد تضحیک اور ہراساں کرنا ہے کیوں کہ نیب نے ٹیکس ادائیگیوں کو نظر انداز کر کے ٹیکس سے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نیب نے حکومتی افسران کو گرفتاری کی دھمکیاں دے کر میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا کہا جبکہ مفتاح اسمٰعیل اور شیخ عمران الحق کی گرفتاری بھی وعدہ معاف گواہ نہ بننے کے باعث ہوئی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی کے ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

اپنے جواب میں انہوں نے پوچھا کہ اگر میں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا تو مفتاح اسمٰعیل اور شیخ عمران الحق یہاں کیا کر رہے ہیں؟

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ انصاف کا قتل نہیں؟ اگر میں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا تو اس سے کسی کو کیا فائدہ پہنچا؟

انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے مجھ پر کرپشن کا الزام بھی لگایا، یہ بتائیں کہ کس سے کرپشن کے پیسے وصول کیے؟

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کسی سے خوفزدہ ہوتی ہے تو اس کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کر دیتی ہے اور اس سب کی واحد وجہ آپ کی اپوزیشن جماعت سے وابستگی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کا ایل این جی ٹرمینل دنیا بھر کا سستا ترین منصوبہ ہے جو 100 فیصد گنجائش پر چل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان، مفتاح اسمٰعیل کے جسمانی ریمانڈ میں 'آخری مرتبہ' توسیع

اپنے جمع کروائے گئے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فرنس آئل کے مقابلے میں ایل این جی ٹرمینل سے بجلی کی پیداوار سے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کی بچت ہوئی۔

بعدازاں ان کی بات مکمل ہونے پر عدالت نے نیب کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم، سابق وزیر خزانہ سابق ایم ڈی پی ایس او شیخ عمران الحق کو بھی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

علاوہ ازیں کمرہ عدالت کے باہر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں نے عدالت میں کہا کہ ان عدالتوں میں کوئی انصاف نہیں، یہاں پر ریاست خود شواہد پیدا کررہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتوں میں لوگوں کی تذلیل ہوتی ہے اس لیے عدالت میں لائیو کیمرا لگانا چاہیے جبکہ اوپن ٹرائل ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے۔

دوران سماعت شاہد خاقان عباسی کو زدوکوب اور گلاس مارنے کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ مجھے جو گلاس مارے گا میں اسے واپس گلاس ماروں گا اور جب میں ماروں گا تو پھر وہ دیکھنے والا ہوگا۔

ایل این جی کیس

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمنل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد رواں برس اپریل میں حکومت نے 36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ (جون) میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں