لندن: بی بی سی، سی این این کے دفاتر کے باہر کشمیر کے حق میں احتجاج

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2019
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے چلنے والا بی بی سی مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کو نمایاں نہیں کررہا — فائل فوٹو/اے ایف پی
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے چلنے والا بی بی سی مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کو نمایاں نہیں کررہا — فائل فوٹو/اے ایف پی

لندن: برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر کئی مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر کے حق میں احتجاج کیا اور کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) کے دفتر کے باہر بھی اس ہی طرح کا ایک مظاہرہ منعقد کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر میں بحران کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

میڈیا اداروں کے دفاتر کے باہر جمع مظاہرین نے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے اور 'بی بی سی جاگ جاؤ'، 'سی این این جاگ جاؤ' اور 'ہمیں آزادی چاہیے' کے نعرے لگائے۔

متعدد مظاہرین کا کہنا تھا کہ بی بی سی کو چلانے کے لیے ان کے ٹیکس کے پیسے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کو نمایاں نہیں کیا جارہا۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے محبوب چوہدری کا کہنا تھا کہ 'ہم ٹیکس دہندگان ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ہمارے پیاروں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، یہ جاننا ہمارا حق ہے، بی بی سی اس معاملے کو نظر انداز کر رہا ہے اور یہی کام سی این این بھی کر رہا ہے'۔

مظاہرے میں شامل ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی پر خبریں نہ دے کر میڈیا بھارتی اقدامات کا احتساب کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: '5 اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 722 احتجاجی مظاہرے ہوئے'

الفورڈ کے رہائشی جاوید راشد کا کہنا تھا کہ 'یہ کشمیر کی صورتحال پر خبریں نہیں دے رہے، ان کی ذمہ داری ہے مظالم کو نمایاں کریں'۔

ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ 'ہماری آواز اتنی ہونی چاہیے کہ ان دفتروں میں بیٹھے افراد تک پہنچ سکے'۔

بی بی سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'بی بی سی نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹنگ کی ہے، دیگر نشریاتی اداروں کی طرح ہم بھی سخت پابندیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں اور ہم غیر جانبدارانہ طور پر اور خبریں دیتے رہیں گے'۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لندن: کشمیریوں کے حق میں ہزاروں افراد کا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

ادھر برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے 6 ستمبر کو اعداد و شمار جاری کیے تھے جن کے مطابق 3 ہزار 800 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اس میں 2 ہزار 600 افراد رہا کردیے گئے۔

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ سمیت 200 سیاستدان گرفتار ہیں، جس میں 100 سے زائد سیاستدانوں کا تعلق بھارت مخالف جماعتوں سے ہے۔

اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ یہ کریک ڈاؤن مقبوضہ وادی کی حالیہ تاریخ کی ’واضح اور بے مثال‘ کارروائی ہے اور ان گرفتاریوں سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں