عراق میں حکومت مخالف مظاہرے،جھڑپوں میں 28 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2019
جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

عراق کے دارالحکومت بغداد اور جنوبی حصے میں ہزاروں افراد کے مسلسل 3 روز سے جاری احتجاج کے دوران مظاہرین کی پولیس سے جھڑپوں میں 28 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں میں نافذ کرفیو کی مخالفت کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین نے کرپشن، بے روزگاری اور عوامی سہولیات کے فقدان کے خلاف احتجاج کیا۔

یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ اور بے روزگار 22 سالہ علی کا کہنا تھا کہ 'ہم تب تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک حکومت گر نہیں جاتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میری جیب میں کچھ بھی نہیں ہے جبکہ سرکاری حکام کے پاس لاکھوں روپے ہیں'۔

مزید پڑھیں: عراق کا اردن سے صدام حسین کی بیٹی کی حوالگی کا مطالبہ

پولیس اور فوجی اہلکاروں نے زمین پر فائرنگ کی جو پلٹ کر مظاہرین کو جاکر لگی جس کی وجہ سے کئی افراد زخمی ہوئے اور انہیں چنگچی کے ذریعے ہسپتال پہنچایا گیا۔

احتجاج میں شامل ابو جعفر کا کہنا تھا کہ 'پولیس ہم پر گولیاں کیوں چلا رہی ہے، وہ بھی ہماری طرح ظلم سہہ رہے ہیں'۔

3 روز سے جاری مظاہرے میں 28 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 2 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

نصف سے زائد ہلاکتیں جنوبی شہر نصریہ میں ہوئیں جہاں صرف جمعرات کو 6 افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

اس کے نزدیکی شہر امارۃ میں بھی خونریزی دیکھی گئی جہاں ڈاکٹروں اور سیکیورٹی ذرائع نے آج 4 مظاہرین کی ہلاکتوں کی تصدیق کی۔

بعد ازاں بغداد سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم دیوانی شہر میں بھی دو مظاہرین اور ایک پولیس افسر ہلاک ہوئے۔

سفاکانہ اقدامات

انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے مظاہرین کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے اور تازہ جھڑپوں کی ویڈیو بھیجنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

سائبر سیکیورٹی مانیٹر 'نیٹ بلاکس' کے مطابق موبائل نیٹ ورک آپریٹرز کی جانب سے 'دانستہ پابندیاں' عائد کیے جانے کے بعد سے تقریباً 75 فیصد عراق آف لائن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بحرین کی اپنے شہریوں کو فوری طور پر ایران، عراق چھوڑنے کی ہدایت

اقوام متحدہ, یورپی یونین اور برطانیہ نے دونوں جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مظاہرین کے خلاف کارروائیوں پر تنقید کی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی لن مالوف کا کہنا تھا کہ 'عراقی سیکیورٹی فورسز کا مظاہرین کے خلاف خونریز اور غیر ضروری قوت کا استعمال شرمناک ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انٹرنیٹ کی بندش مظاہروں کو کیمرے اور دنیا کی نظر سے دور رکھنے کا سفاکانہ عمل ہے'۔

واضح رہے کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق عراق میں نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں