حکومت نے ماضی کے مقابلے میں 50 فیصد کم آرڈیننس جاری کیے، پی ٹی آئی سینیٹر

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2019
اپوزیشن ارکان نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 13 ماہ کے دوران 15 مرتبہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا — فائل فوٹو: اے پی پی
اپوزیشن ارکان نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 13 ماہ کے دوران 15 مرتبہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ولید اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت نے ماضی کے مقابلے میں 50 فیصد کم آرڈیننس جاری کیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی کی کوششوں کے خلاف اپوزیشن ارکان کی جانب سے شور شرابا کیا گیا۔

تاہم اجلاس کے دوران وزارت پارلیمانی امور کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومتوں کے دوران ایک سال میں اوسطاً 26 آرڈیننس جاری کیے جاتے تھے.

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے زیادہ آرڈیننس جاری کرنے پر تنقید کی اور آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدرِ مملکت کی جانب سے آرڈیننس کے اجرا کے ایجنڈا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 13 ماہ کے دوران 15 مرتبہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا گیس انفرااسٹرکچر سرچارج سے متعلق آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کی چیئرپرسن سسی پلیجو نے کہا کہ ایک سال میں نافذ کیے گئے قوانین کی تعداد اس عرصے میں جاری کیے گئے آرڈیننس کے مقابلے میں کم ہے، یہ پارلیمنٹ کو ایک مہرے میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ آرٹیکل 89(1) میں کہا گیا ہے کہ ’ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے علاوہ اگر ایسے حالات موجود ہوں جہاں فوری ایکشن لینا ضروری ہو تو صدر حالات کی بنیاد پر آرڈیننس جاری کرسکتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدر کو آرڈیننسز جاری نہیں کرنے چاہیئیں، اس عمل کی لازمی طور پر حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے‘۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر نے کہا کہ کوئی بھی بل منظوری سے قبل بحث کے لیے پیش کیا جاتا ہے جبکہ پارلیمنٹ میں پیش کیے بغیر آرڈیننس جاری کیے جاتے ہیں۔

بعد ازاں وزارت برائے پارلیمانی امور کے ایک عہدیدار نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں آرڈیننس کے اجرا کی تعداد موجودہ حکومت سے زیادہ تھی۔

جس پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ولید اقبال نے اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پی ٹی آئی ہمارے نہیں اپنے اراکینِ اسمبلی کی فکر کرے'

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران 15 آرڈیننس کے اجرا کی تعداد غلط بتائی جارہی ہے۔

سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ ’ اگر ہم فرض کریں کہ جو تعداد بتائی جارہی ہے وہ صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ماضی کے مقابلے میں اس میں 50 فیصد کمی کی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی 18ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل آرڈیننس جاری کرنے کے اختیار کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی قرار داد کے ذریعے آرڈیننس کو مسترد کرسکتی ہیں۔

جس پر سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے ظاہر ہوا کہ پارلیمنٹ آرڈیننس کے اجرا کو اچھی چیز نہیں سمجھتی۔

تبصرے (0) بند ہیں