بھارت میں رواں برس نفرت انگیزی میں خطرناک اضافہ ہوا، ایمنسٹی انٹرنیشنل

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2019
مشتعل ہجوم کی جانب سے سب سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا—فائل/فوٹو:ڈان
مشتعل ہجوم کی جانب سے سب سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا—فائل/فوٹو:ڈان

ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کی ویب سائٹ ‘ہالٹ دی ہیٹ’ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں 2016 سے نفرت انگیزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا جو رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ میں بدترین حد تک پہنچ گئی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے ابتدائی 6 ماہ میں 181 مبینہ نفرت انگیز واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو گزشتہ تین برس کے اس دورانیے سے دوگنا ہے۔

رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ کی رپورٹ میں بھارت میں صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں صورت حال خطرناک ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے نمائندے آکار پٹیل کا کہنا تھا کہ ‘بھارت نے نفرت انگیز جرائم کے خاتمے کا عزم کیا تھا جہاں لوگوں کو ان کی شناخت، مذہب، ذات، جنس اور دیگر بنیادوں پر نشانہ بنایا جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ بھارت کے قوانین میں خامیوں کی نشان دہی کی جائے اور ان واقعات کو ترتیب دیا جائے’۔

مزید پڑھیں:مودی کو کھلا خط لکھنے پر بھارت کی 49 نامور شخصیات کےخلاف مقدمہ

بھات کی ریاست اترپردیش میں 52 سالہ محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل کیے جانے کے بعد نفرت انگیز واقعات کے حوالے سے ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2015 میں ہالٹ دی ہیٹ ویب سائٹ کا اجرا کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر 2015 سے جون 2019 تک ہالٹ دی ہیٹ نے بھارت میں مجموعی طور پر 902 واقعات ریکارڈ کیے جن میں سے 181 مبینہ نفرت انگیز واقعات رواں برس جنوری سے جون کے درمیان پیش آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں سے 37 ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2019 کے دوران دو تہائی واقعات دلت شناخت پر پیش آئے اور دوسرے نمبر پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے 40 واقعات ریکارڈ ہوئے، آدیواسی 12، عیسائی 4 اور جنسی تفریق پر 6 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

مزید پڑھیں:بھارت: 'گوشت' لے جانے والے مسلمان جوڑے پر ہجوم کا بدترین تشدد

ان میں سے کئی واقعات دلت کو سرعام چلنے، پانی اور اسکولوں کی سہولت سے دور رکھنے سے متعلق تھے، گائے اور غیرت کے نام پر قتل کے 17 واقعات رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق کئی افراد کو ان کی مخصوص شناخت پر نشانہ بنایا گیا، جن خواتین نے خود کو دلت، مسلمان، عیسائی یا کسی جنس کے حوالے سے شناخت کرائی ان کو نشانہ بنانے کے 58 واقعات پیش آئے جن میں 30 خواتین کو یا تو ریپ کا نشانہ بنایا گیا یا جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشل نے اپنی ویب سائٹ کی رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ ‘فروری 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلواما میں بھارتی فوج کے 42 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ہجوم کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے 14 واقعات بھی پیش آئے اور نشانہ بننے والے اکثر کشمیری چھوٹے تاجر تھے’۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘فروری 2019 میں سب سے زیادہ 37 واقعات پیش آئے جس کے بعد مارچ میں 36 نفرت انگیز واقعات رپورٹ ہوئے’۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت: گائے ذبح کرنے کے الزام میں تشدد سے ایک اور مسلمان جاں بحق

بھارت میں ہجوم کی جانب سے نشانہ بنانے کے واقعات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ‘ہجوم کا نشانہ بننے والے واقعات مجموعی طور 72 ریکارڈ ہوئے جن میں سے نصف سے زیادہ 37 واقعات میں مسلمان نشانہ بنے’۔

رپورٹ کے مطابق ‘ان تمام واقعات میں متاثرین کو یا تو وندے ماترم یا جے شری رام یا جے ہنومان یا پاکستان مردہ باد کہنے یا سر سے ٹوپی اتارنے پر مجبور کیا گیا جبکہ 5 افراد کو ہجوم کے تشدد میں مارا گیا’۔

ایمنسٹی انٹرنیشل کا کہنا ہے کہ بھارت میں 2015 میں نریندر مودی کی قیادت میں بننے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دوران اترپردیش، گجرات، راجستھان، ہریانہ اور شدت پسند جماعت کی قیادت میں تامل ناڈو میں نفرت انگیز واقعات میں بدترین اضافہ ہوا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں