بلاول بھٹو، اسفند یار ولی کا فضل الرحمٰن سے کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2019
فرحت اللہ بابر کے مطابق اپوزیشن متحد ہے اور رہے گی، ہم وزیراعظم کو عہدے سے ہٹائیں گے — فوٹو: اے این پی ٹوئٹر
فرحت اللہ بابر کے مطابق اپوزیشن متحد ہے اور رہے گی، ہم وزیراعظم کو عہدے سے ہٹائیں گے — فوٹو: اے این پی ٹوئٹر

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے 27 اکتوبر کو شروع ہونے والے مارچ کے لائحہ عمل سے متعلق کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) بلانے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے اصرار کیا کہ 27 اکتوبر کے حکومت مخالف مارچ کے لائحہ عمل سے متعلق اپوزیشن جماعتوں کو بریفنگ دی جائے اور دوسری جماعتوں کی شرکت کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جائے۔

اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی کی ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور اے این پی کے میاں افتخار حسین نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ہٹانے اور فوج کی کسی مداخلت کے بغیر آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے مشترکہ ایجنڈے پر متحد ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مکمل اتحاد موجود ہے کہ 'سلیکٹڈ حکومت' کو گھر بھیجا جائے کیونکہ اس نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا اور عام آدمی کی زندگی مشکل بنادی۔

مزید پڑھیں: حکومت کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے تجویز دی ہے کہ 27 اکتوبر کے ’آزادی مارچ ‘ کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کی ایک اور کثیر الجماعتی کانفرنس منعقد کی جانی چاہیے‘۔

فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ اگر ایم پی سی منعقد نہیں ہوتی تو پیپلز پارٹی اور اے این پی آزادی مارچ میں شرکت کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے اپنی متعلقہ کور کمیٹیوں کا اجلاس طلب کریں گی، جس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ وہ کس حد تک اس مارچ میں شرکت کرسکتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا تھا کہ ’ہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن متحد ہے اور رہے گی، ہم وزیراعظم کو عہدے سے ہٹائیں گے‘۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ اس حکومت کو ہر حال میں جانا ہوگا‘۔

علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں رابطے میں ہیں اور وہ ہر قدم یکجہتی کے ساتھ اٹھائیں گے۔

افتخار حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے لانگ مارچ کی کال دی ہے اور اب تمام اپوزیشن جماعتیں اس کا حصہ بنیں گی۔

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت نے 27 اکتوبر کو حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہم مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کو سپورٹ کر رہے ہیں'

اے این پی رہنما کا کہنا تھا کہ اگر جمیعت علمائے اسلام (ف) اس مرحلے پر کثیر الجماعتی کانفرنس کا انعقاد کرلے تو آزادی مارچ کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوجائے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ ’ہم سب اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں لانگ مارچ کے معاملے پر تمام ساتھیوں کا لازمی طور پر اعتماد میں لینا چاہیے۔

افتخار حسین نے کہا کہ ہم لانگ مارچ میں شرکت سے متعلق کسی فیصلے سے قبل جمیعت علمائے اسلام (ف) کا موقف جاننا چاہتے ہیں جس سے ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں کو مارچ میں شرکت سے متعلق مدد ملے گی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لانگ مارچ کا اعلان جمعیت علمائے اسلام نے کیا لیکن ہم ان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں‘۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ انہیں اپوزیشن جماعتوں کے اختلاف سے موجودہ حکومت کو فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہیے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم دیکھیں گے کہ کس حد تک جاسکتے ہیں اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مارچ کو کامیاب بنانے میں کس طریقے سے مدد کرسکتے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نہیں بلکہ حکومت مذہب کارڈ کھیل رہی ہے، مذہب کارڈ کا معاملہ گزشتہ ایم پی سی میں حل ہوگیا تھا جب مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا تھا کہ وہ آئین میں اسلامی دفعات کی حفاظت سے متعلق بات کررہے تھے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے وفد کے ہمراہ اے پی این کے صدر اسفندیار ولی سمیت دیگر رہنماؤں سے اسلام آباد میں قائم ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ ملاقات چارسدہ میں اسفند یار ولی کے گھر پر ہونی تھی تاہم سیکیورٹی وجوہات کے باعث اسلام آباد میں ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں