سندھ ہائیکورٹ کا گٹکا مافیا کے خلاف مقدمات درج کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2019
سندھ ہائی کورٹ نے گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف دفعہ 337-اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا کامنز
سندھ ہائی کورٹ نے گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف دفعہ 337-اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا کامنز

سندھ ہائیکورٹ نے گٹکا مافیا کے ساتھ ساتھ اس کی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف دفعہ 337-اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

ایڈووکیٹ مزمل ممتاز نے مین پوری اور گٹکا کی فروخت کے خلاف درخواست جمع کروائی تھی جس کی سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں قائم سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔

مزید پڑھیں: عدالتی احکامات کے باوجود کراچی میں 69 گٹکا فیکٹریاں تاحال فعال

ایڈووکیٹ مزمل ممتاز نے دوران سماعت اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس نقصان دہ مواد کی فروخت کے سلسلے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 336 کے تحت مقدمہ درج کر رہی ہے جو ایک قابل ضمانت جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والے اتنی جلدی جیلوں سے باہر آکر آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔

ایڈووکیٹ مزمل نے عدالت کی توجہ ایک اہم نکتے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے کراچی میں گٹکا اور مین پوری کی فروخت پر مکمل پابندی کے باوجود اسے سرعام پولیس کی سرپرستی میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منشیات کی مسلسل فروخت کے باعث اہل کراچی منہ کے کینسر سمیت خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور عدالت سے استدعا کی کہ گٹکے پر لگائی گئی پابندی پر عملدرآمد نہ کرانے پر سندھ پولیس اور صوبائی حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی گٹکا فروخت کرنے کے جرم میں 10 پودے لگانے کی انوکھی سزا

گزشتہ ہفتے بینچ نے صوبائی حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ سندھ میں گٹکا اور مین پوری بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کے حوالے سے رپورٹ 8 اکتوبر کو پیش کرے اور آج سماعت کے دوران جواب دینے کے لیے محکمہ صحت اور پولیس کے آفیشلز دونوں موجود تھے۔

ڈاکٹر غلام حیدر نے عدالت کو بتایا کہ جناح ہسپتال کے محکمہ آؤٹ پیشننٹ کو روزانہ 300 سے زائد کینسر کے کیسز موصول ہوتے ہیں جن میں سے 70 فیصد سے زائد مریض منہ کے کینسر کا شکار ہوتے ہیں، منہ کے کینسر کا شکار اکثر مریض کالج اور اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے والے نوجوان ہوتے ہیں۔

بینچ نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ وہ کل ہونے والی سماعت کا بھی حصہ ہیں جہاں کل عدالت اس حوالے سے قانونی سازی کے بارے میں تجاویز پر غور کرے گی۔

مزید پڑھیں: سندھ میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی

اس موقع پر درخواست گزار نے کہا کہ وہ اس معاملے پر عدالت کو مزید تفصیلی ریکارڈ اور ڈیٹا دیں گے تاکہ موثر انداز میں قانون سازی ہو سکے۔

جسٹس پنہور نے شہر میں گٹکے، مین پوری اور ماوا کی تمام تر فیکٹریاں سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس حکام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو مبینہ طور پر اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں اور کروڑوں روہے بنا رہے ہیں۔

مقدمے کی سماعت کل دوبارہ ہو گی۔

تبصرے (0) بند ہیں