جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر سماعت،'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2019
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ججز میں سے ایک ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ججز میں سے ایک ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر ان کے وکیل کی جانب سے سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست سمیت 17 متفرق درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور دیگر لوگ پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کو 2 ہفتے کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بینچ کے ایک رکن کو 2 ہفتوں بعد ملک سے باہر جانا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ابھی عدالت صرف درخواستوں کو برقرار رکھنے سے متعلق دلائل سن رہی ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

اس دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست پر جواب جمع کروایا جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ وہ اس جواب کی نقل کیس کے تمام درخواست گزاروں کو فراہم کردیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست میں کہا گیا کہ ان کے موکل کے خلاف لگائے گئے الزامات بدنیتی پر مبنی تھے جبکہ اس جواب میں بدنیتی کے الزام کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے، جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ یہ کیس پوری عدلیہ کا ٹرائل ہے۔

وکیل کے جواب پر جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک کو یاد دلایا کہ یہ کیس آپ کی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی کافی التوا کا شکار ہوگیا ہے جبکہ پہلے آپ کے اعتراض کی وجہ سے 2 ججز بینچ سے الگ ہوگئے تھے، 'یہ عمل تکلیف دہ تھا'۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 'یہ معاملہ اس ادارے (عدلیہ) کے لیے بھی اہم ہے، (لہٰذا) ہم نے عدالت میں پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے'۔

اس پر منیر اے ملک نے اعتراض کیا کہ جج اور ان کے اہل خانہ کی جاسوسی کی جاتی رہی جبکہ 'ان کے موکل کے خلاف مہم چلائی گئی'، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں اس کیس کے پس منظر کی مدد سے بنائیں گے کہ کس طرح جج کی تضحیک ہوئی۔

عدالتی استفسار پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ان کے موکل کی جانب سے ایک فیصلہ دیا گیا، جسے ناپسند کیا گیا، 'اس فیصلے کے بعد میرے موکل کے خلاف ایک سوچی سمجھی مہم چلائی گئی'۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی چیف جسٹس سے اپنے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی درخواست

اسی دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے، ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ 'جب درخواست گزار بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے بیرون ملک 3 جائیدادیں خریدی تھیں؟

جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ 'پوری قوم کی نظریں اس بینچ پر ہیں تو اتنی عجلت کیوں ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ 10 رکنی بینچ اس ادارے کا تحفظ کرے'۔

اسی جواب پر عدالت کے جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 'ہماری کوشش ہے کہ مقدمے کی جلد سماعت کریں'، ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیے کہ 'ہم یہاں مقدمات سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آپ اگر چاہتے ہیں کہ کیس میں زیادہ التوا ہو تو بتائیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'، ہماری 'کمیونٹی' کے 'معزز دوست' پر الزام ہے جبھی ہم اس معاملے کو سننا چاہتے ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے منیر اے ملک سے درخواست کی کہ جواب ملنے کے بعد جلد از جلد اپنا جواب داخل کرائیں۔

دوران سماعت عدالت میں موجود رضا ربانی نے کہا کہ ہمیں بھی سنا جائے اور کہا کہ انہوں نے اپنی درخواست میں 2005 کے قوانین کی بات کی ہے جبکہ کچھ نکات دیگر درخواستوں کی طرح ایک جیسے ہیں۔

اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مرکزی درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد ان کی باری آنے پر انہیں سنا جائے گا۔

عدالتی ریمارکس پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ عدالت 15 دیگر درخواستوں کو نظر انداز کر رہی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 'یہ کوئی کیک نہیں جس میں ہر کسی کو حصہ ملے گا'، یہ ایک کیس ہے جس کی ہم نے سماعت کرنی ہے۔

ساتھ ہی جسٹس عمرعطا بندیال نے رشید اے رضوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کی نقل مل جائے گی۔

علاوہ ازیں اس کیس میں ایک اور درخواست گزار اور سینئر وکیل بلال منٹو کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے بھی ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں کونسل کی تشکیل سے متعلق جوابات مانگے گئے ہیں جبکہ کونسل میں ہونے والی سماعت کا ریکارڈ بھی فراہم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'میں ریکارڈ کے بغیر دلائل نہیں دے سکوں گا، جس پر عدالتی بینچ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست کو بعد میں سنا جائے گا'۔

بعد ازاں عدالت نے اس معاملے پر منیر اے ملک کی 2 ہفتے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مزید سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدعا

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں