قصور: 3 سال تک نوجوان کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام، 3 افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2019
یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ان پانچوں ملزمان کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی
یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ان پانچوں ملزمان کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی

پنجاب کے ضلع قصور کے شہر پتوکی میں پولیس نے نوجوان لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی، فلم بنانا اور بلیک میل کرنے کے الزام میں 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔

اتوار کے روز درج ہونے والی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں تینوں ملزمان کو نامزد کیا گیا جس کے اگلے ہی روز پولیس کی ٹیم نے انہیں گرفتار کرلیا۔

ایف آئی آر میں مزید 2 افراد بھی نامزد ہیں۔

قصور کے ایس پی انویسٹی گیشن مرزا عبدالقدوس بیگ کے مطابق پولیس مزید 2 افراد کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: چونیاں میں ریپ کے بعد بچوں کا قتل، ملزم 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

متاثرہ لڑکے کے والد کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق گزشتہ ڈھائی سال سے 5 ملزمان مسلسل ان کے بیٹے کو بندوق کے زور پر اور بلیک میلنگ کے ذریعے ریپ کر رہے تھے۔

یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ان پانچوں ملزمان کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے متاثرہ نوجوان سے پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا جو 4 سال قبل قصور کے گاؤں حسین خان والا میں چائلڈ پورنوگرافی کے کیس میں سامنے آیا تھا۔

نوجوان نے دعویٰ کیا کہ ملزمان فلم بناتے تھے اور دھمکی دیتے تھے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے تو وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیں گے۔

پولیس حکام کے مطابق ایک ملزم پر پیر کے روز علیحدہ ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔

دوسری ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے بھائی کو اس ہی ملزم نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق ملزم نے 3 ماہ قبل متاثرہ شخص کو سالگرہ کی دعوت کا بہانہ بنا کر بلایا اور وہاں ریپ کرکے دھمکیاں دیں اور کہا کہ 'اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو خاموش رہنا'۔

یہ بھی پڑھیں: چونیاں میں بچوں کا ریپ،قتل: عثمان بزدار کا ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ

ملزم کی جانب سے دوبارہ رابطہ کیے جانے اور بلیک میل کرنے پر متاثرہ نوجوان نے اپنے بھائی کو واقعے کے بارے میں بتایا اور اس کے اگلے دن رپورٹ درج کی گئی۔

واضح رہے کہ چند روز قبل قصور کے علاقے چونیاں میں 4 کم سن بچوں کے مبینہ سیریل قاتل کو گرفتار کیا گیا۔

8 سے 12 سالہ 4 بچے جون کے مہینے سے لاپتہ تھے جبکہ 8 سالہ فیضان 16 ستمبر کی رات کو لاپتہ ہوا تھا۔

3 بچوں کی لاش 17 ستمبر کو چونیاں بائی پاس کے نزدیک مٹی کے تودے سے ملے تھے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں قصور بچوں کے ریپ، زیادتی کے واقعات سے لرز اٹھا ہے۔

جنوری 2018 میں 5 روز سے لاپتہ رہنے کے بعد 6 سالہ بچی زینب انصاری کی لاش قصور میں شہباز خان روڈ کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور لوگوں کی جانب سے ان واقعات میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔

زینب کے کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کو 23 جنوری 2018 کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور 12 جون کو عدالت عظمیٰ نے ملزم کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم نے 8 دیگر بچوں کے ساتھ اسی طرح کا جرم کیا، بعد ازاں عمران علی کو گزشتہ برس اکتوبر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

اس سے قبل 2015 میں قصور کے حسین خان والا گاؤں نے دنیا بھر کی توجہ اس وقت حاصل کی تھی جب وہاں چائلڈ پورنوگرافی کا معاملہ سامنے آیا تھا، اس وقت سیکڑوں ایسی ویڈیو کلپس سامنے آئی تھیں جس میں ایک گروپ کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی عمل کرنے اور اس کی فلم بندی کرنے پر مجبور کرتھا تھا۔

یہ گروپ ان ویڈیوز کو ان بچوں کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا اور ان سے لاکھوں روپے نقد اور جیولری کی صورت میں وصول کرتا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں