اپوزیشن نے آرڈیننس سے ’سی پیک اتھارٹی‘ کے قیام کو مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2019
حکومتی اقدام کو ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کی علامت قرار دیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
حکومتی اقدام کو ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کی علامت قرار دیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آرڈیننس کے ذریعے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے قیام کو غیرقانونی قرار دے دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی میں شرکت کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بتایا کہ آرڈیننس کے ذریعے سی پیک اتھارٹی کا قیام بیک ڈور قانون سازی ہے اور اس حکومتی اقدام کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

مزیدپڑھیں: سی پیک کے 11 ترقیاتی منصوبے مکمل، 11 پر کام جاری

انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت نے ثابت کردیا کہ انہیں ریاستی اداروں پر اعتماد نہیں رہا۔

احسن اقبال نے خبردار کیا کہ مسلم لیگ (ن) آرڈیننس کے خلاف پارلیمنٹ میں شدید احتجاج کرے گی اور دیگر فورم پر بھی مذکورہ معاملہ اٹھائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سی پیک اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے۔

حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ سی پیک اتھارٹی کے قیام کا مقصد سی پیک سے متعلق تعمیری سرگرمیوں کی رفتار بڑھانے اور ترقی کے نئے امکانات تلاش کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے

اس ضمن میں مزید کہا گیا تھا کہ متعلقہ اتھارٹی علاقائی اور عالمی روابط کے ذریعے باہمی پیداواری، نیٹ ورک اور عالمی کمپنیوں کی استعداد کار سے فائدہ اٹھائے گی۔

اس معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک پر قومی اسمبلی کی کمیٹی، اس اتھارٹی کے قیام کی قطعی طور پر مخالفت کرچکی، آرڈیننس کے ذریعے ’پارلیمنٹ کو زمین بوس‘ کیا جارہا ہے اور مذکورہ حکومتی اقدام قومی نوعیت کے منصوبے کو متنازع بنا دے گی۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی کے قیام سے واضح پیغام ملتا ہے کہ حکومت کو ریاستی اداروں پر عدم اعتماد ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک منصوبوں پر 28 ارب 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ’اتھارٹی‘ لے کر نہیں آئی بلکہ آئینی اداروں اور جمہوری طریقے سے سیاسی حکومت لے کر آئی۔

انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لیے اتھارٹی کا قیام نہیں بلکہ وژن اور رقوم درکار ہیں اور موجودہ حکومت ان دونوں چیزوں سے محروم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے اتھارٹی کے قیام کا اعلان

سابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کا قیام متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے درمیان روابط میں پیچیدگیوں اور مسائل کا باعث بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے مذکورہ معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی شفارش کی تھی تاکہ اس پر تفصیل سے بحث ہو سکے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی نے حکومت کو اتھارٹی کے قیام کے لیے پارلیمنٹ میں آنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

دوسری جانب پی پی پی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سی پیک منصوبے عسکری قیادت کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم سول سوسائٹی کو ملٹری کے سانچے میں نہیں دیکھنا چاہتے اور اب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے'۔

واضح رہے کہ بعض حکام اور مبصرین نے سی پیک منصوبوں میں سست روی کی شکایت کی تھی جس کی ایک وجہ پاکستان کی معیشت پر قرضے کا بوجھ اور مشکلات میں گھری اقتصادی سرگرمیاں ہیں، جس کے پیش نظر اسلام آباد نے جولائی میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج لیا تھا۔

مزیدپڑھیں: چائنا پاور حب جنریشن کمپنی کا پہلا یونٹ نیشنل گرڈ سے منسلک

چند روز قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار نے کہا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تمام منصوبے خصوصاً شعبہ توانائی کے منصوبے فعال ہیں اور سی پیک منصوبوں سے متعلق منفی موقف کی تردید کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا تھا کہ توانائی سمیت سی پیک کے تمام منصوبے بروقت مکمل ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں