میرا خود سے باتیں کرنا کیا پاگل پن کی علامت ہے؟

09 اکتوبر 2019
خود سے باتیں کرنا کسی ذہنی بیماری کی علامت تو نہیں— شٹر اسٹاک فوٹو
خود سے باتیں کرنا کسی ذہنی بیماری کی علامت تو نہیں— شٹر اسٹاک فوٹو

اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ نوجوانی یا درمیانی عمر میں آپ اپنے ذہن یا بلند آواز میں خود سے باتیں کرتے رہے ہوں۔

کچھ افراد ایسا اکثر کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے مددگار بھی سمجھتے ہیں، مگر ہوسکتا ہے کہ آپ سوچتے ہوں کہ خود سے باتیں کرنا یا خودکلامی نارمل ہے ؟ کیا اس میں کوئی اچھائی ہے؟ یا یہ ایک بری چیز ہے؟

مگر سب سے اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ خود سے باتیں کرنا کسی ذہنی بیماری کی علامت تو نہیں؟

طبی ماہرین جیسے ڈاکٹر لورا ایف ڈیبنی کا اس بارے میں کہنا ہے 'خود سے باتیں کرنا نارمل اور بہت عام ہوتا ہے، یہ ایسی عادت نہیں جو بڑھ کر لت بن جائے یا ذہنی مرض کی علامت ہو اور یہ لوگوں کی توقعات سے زیادہ عام ہوتی ہے'۔

اس حوالے سے ایک کتاب دی آرٹ آف ٹاکنگ ٹو یورسیلف کی مصنفہ ویرونیکا ٹوگالیوا کے مطابق 'سچ تو یہ ہے کہ ہم سب ہی اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اس طرح اونچی آواز میں بات کرنا عجیب لگے، مگر ہم سب ہی اپنے ذہنوں میں ایسا کرتے ہیں، جو اپنی روزمرہ کی زندگی کے کاموں اور چیزوں کی وضاحت کے لیے کرتے ہیں'۔

ڈاکٹر لورا ایف ڈیبنی کے مطابق روزمرہ کے منظرنامے کا تصور کریں جس میں آپ خودکلامی کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر ہوسکتا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے آپ اہم چیزیں جیسے چابیاں، کوٹ، بیگ اور لنچ کی گردان کررہے ہوں یا دفتر سے واپسی پر اپنے باس سے ہونے والی پرتناﺅ گفتگو پر پریشان ہوکر بڑبڑانے لگیں۔

ٓاس عادت کے اپنے فوائد ہیں

ماہرین کے مطابق خودکالمی کرنا صحت مند اور مددگار عادت ہے، خاص طور پر مثبت انداز سے خود سے باتیں کرنا مشکل دور سے گزرنے میں مدد دے سکتا ہے، کیونکہ اس سے خود کو پرسکون رکھنے اور تناﺅ یا فکرمندی کی بجائے مثبت چیزوں پر توجہ مرکوز کرنا ممکن ہوتا ہے۔

زندگی میں ایسا کڑا وقت بھی آتا ہے جب لوگ اکثر خودکلامی کرتے ہیں، مثال کے طور پر جب جذباتی صورتحال میں کوئی مشکل فیصلہ کرنے کی کوشش کررہے ہوں یا جذباتی کیفیت پر قابو پانا چاہتے ہوں۔

دیگر فوائد

خودکلامی سے لوگ خود کو روزمرہ کے کام یاد رکھتے ہیں یا چھوٹے یا لمحاتی مسائل سے نمٹتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس کو زیادہ بامقصد اس طرح بنایا جاسکتا ہے کہ خودکلامی کے دوران آپ خود کو کوئی دوسرا یا تیسرا فرد سمجھیں، جیسے کسی عوامی مقام پر تقریر کرنی ہے تو خود سے یہ کہنے کی بجائے کہ میں اتنا نروس کیوں ہوں؟ یہ کہیں آخر تم اتنے نروس کیوں یا فلاں اتنا نروس کیوں ہے؟۔

خودکلامی کو عادت بنانے میں کوئی برائی نہیں

ماہرین کے خیال میں خودکلامی کو ذہنی دھیان یا ہوشیاری سے بھی جوڑا جاسکتا ہے، ان کے بقول مشکل وقت مین ہمارا ذہن ہمیں تاریکی کی جانب لے جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مثبت انداز سے خودکلامی کو عادت بنانا اس سے بچنے کے لیے ایک اچھی مشق ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ خود سے باتیں کرنے میں کوئی نقصان نہیں تو اسے عادت بنالینا اچھا خیال ہے، بس اس کے لیے کوئی خاص وقت یا مقام کا انتخاب کرلیں یا اس وقت اس کی کوشش کریں جب دن میں کسی پرتناﺅ واقعے کا سامنا ہو۔

کیا یہ نقصان دہ یا بیماری کی علامت ہے؟

خودکلامی کو اکثر ذہنی امراض سے جوڑا جاتا ہے مگر شاذونادر ہی یہ کسی دماغی مرض کی علامت ہوتا ہے، تاہم کئی بار یہ نفسیاتی مسائل کا عندیہ ضرور ہوسکتا ہے، جیسے خودکلامی کے ساتھ خود کو نقصان پہنچانے کی جائے، تو یہ ایک جذباتی مسئلے کی علامت ہوسکتی ہے۔

یا اگر کوئی فرد خود سے باتیں کرتے ہوئے ایک ہی جملہ بار بار دہرائیں تو یہ بھی کسی قسم کے جذباتی یا ذہنی مسئلے کا عندیہ ہوسکتا ہے اور اس حوالے سے کسی طبی ماہر سے بات کرنا بہتر ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں