'مقبوضہ کشمیر میں خواتین اور بچے مسلح جیل میں رہ رہے ہیں'

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2019
مقبوضہ وادی میں 2 ماہ سے زائد عرصے سے مکمل لاک ڈاؤن ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
مقبوضہ وادی میں 2 ماہ سے زائد عرصے سے مکمل لاک ڈاؤن ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب، سفارتکار ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ بھارت کے قبضے میں کشمیری عوام کی زندگی 'ایک قبرستان کی خاموشی میں مسلح پنجرے میں رہنے' جیسا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تیسری کمیٹی کے اجلاس میں ملیحہ لودھی نے 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر حملے کے بعد کی صورتحال پر بات کی اور بتایا کہ 'رات میں چھاپوں کے دوران بڑی تعداد میں بچوں کو اٹھالیا گیا، تشدد اور زبردستی گرفتاریوں کی وہ داستانیں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں کہ کس طرح بچوں سمیت ہزاروں لوگوں کو بغیر کسی وجہ کے گھر سے لے جایا گیا'۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: 'کرفیو، مواصلاتی بندش کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں'

انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بچوں کو درپیش اس 'سنگین حقیقت' پر توجہ دلوائی، جو 2 ماہ سے زائد عرصے سے سخت لاک ڈاؤن میں موجود ہیں، ساتھ ہی عالمی برادری اور یونیسیف، اقوام متحدہ کی بچوں کی ایجنسی سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی امداد کے لیے آئیں۔

واضح رہے کہ تیسری کمیٹی جو سماجی، انسانی اور ثقافتی معاملات دیکھتی ہے اس نے رواں ہفتے خواتین کی ترقی پر ایک مباحثہ کیا اور ملیحہ لودھی نے موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سفارتکاروں پر زور دیا کہ وہ غیرملکی قبضوں میں زندگی گزارنے والی خواتین اور بچوں پر بھی قریب سے نظر ڈالے۔

ساتھ ہی انہوں نے نیویارک ٹائمز کی حالیہ رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ 'بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بند کیے گئے مواصلاتی نظام کی قیمت بیماروں کو کس طرح ادا کرنا پڑ رہی ہے'۔

ملیحہ لودھی نے کہا کہ اگرچہ اس کی تفصیل زیادہ تر آبادیوں پر لاگو ہوتی ہے لیکن یہ 'خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں رہنے والی ان خواتین کے لیے درست ہے' جہاں مسلسل لاک ڈاؤن نے ان کے درد و تکلیف کو بڑھا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی امیدوار کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار

انہوں نے کہا کہ بھارتی قابض فورسز نے رات کی تاریکی میں ماؤں سے ان کے بچے چھینے، پھر 'انہیں غیرقانونی طور پر رکھا گیا اور کچھ بچے کبھی واپس نہیں آئے'۔

پاکستانی سفیر نے درد کی تصویر کی عکاسی کرنے والی اس کشمیری ماں کا حوالہ بھی دیا جو مقبوضہ کشمیر میں سخت پابندیوں کے باعث اپنے بچے کی زندگی کو نہیں بچاسکی تھی۔

نیویارک ٹائمز کے فرنٹ پیج پر شائع اس تصویر کے نیچے لکھا کیپشن یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ایمبولنس کو کال نہیں کرسکیں کیونکہ لاک ڈاؤن تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں