ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی: وزیر قانون کا معاملہ انضباطی کمیٹی کے سپرد

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2019
ڈاکٹر فروغ نسیم نے پی بی سی کے اقدام کو اٹارنی جنرل کے سامنے چینلج کیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر فروغ نسیم نے پی بی سی کے اقدام کو اٹارنی جنرل کے سامنے چینلج کیا تھا — فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: وکلا برادری کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ’پیشہ وارانہ قوائد‘ کی خلاف وزری پر وقافی وزیر قانون فروغ نسیم کا معاملہ انضباطی کمیٹی کے سپرد کردیا۔

واضح رہے کہ انضباطی کمیٹی کی سربراہی سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر قانون کے خلاف پاکستان بار کونسل کا شوکاز نوٹس معطل

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی بی سی ایگزیکٹو کمیٹی کے مطابق اگر کوئی وکیل عوامی عہدے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو وہ پی بی سی سے اپنا پریکٹس لائسنس منسوخ کرانے کا پابند ہے لیکن ڈاکٹر فروغ نسیم نے ضابطہ اخلاق کی پاسداری نہیں کی۔

علاوہ ازیں پی بی سی نے ازخود وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کا لائسنس معطل کردیا تھا، جس کے بعد ڈاکٹر فروغ نسیم نے پی بی سی کے اقدام کو اٹارنی جنرل کے سامنے چینلج کیا۔

جس پر اٹارنی جنرل نے وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کا لائسنس بحال کردیا تھا۔

تاہم اس کے ردعمل میں پی بی سی نے اٹارنی جنرل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چینلج کیا اور عدالت نے مذکورہ معاملہ پی بی سی کے حوالے کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ججز کے خلاف دائر ریفرنس میں قانونی تقاضے نظر انداز کردیے گئے‘

اس ضمن میں پی بی سی کی ایکزیکٹو کمیٹی نے بتایا کہ ڈاکٹر فروغ نسیم کو 5 مرتبہ شوکاز نوٹس ارسال کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور انہوں نے شوکاز نوٹس کو ہی غیرقانونی قرار دیا۔

جس پر کمیٹی نے وفاقی وزیر کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے کر ان پر ضابطہ اخلاق کی ورزی کا الزام عائد کردیا۔

ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے ڈاکٹر فروغ نسیم کا لائسنس منسوخ کردینے کے بعد معاملہ انضباطی کمیٹی کو منتقل کردیا گیا۔

واضح رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال پی بی سی انضباطی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور ان کی جانب سے وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کا لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

علاوہ ازیں پی بی سی نے اعلیٰ عدالتوں اور سپریم کورٹ میں ’لا افسر‘ کی تعیناتی پر تنقید کی۔

مزیدپڑھیں: ججز کے خلاف ریفرنس: دوسری سماعت 2 جولائی کو ہوگی

پی بی سی نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات سے قبل لا افسران کی تعیناتی ’دھاندلی‘ ہے۔

خیال رہے کہ وزارت قانون نے نوٹیفکیشن کے ذریعے 8 اکتوبر 2019 کو دو درجن سے زائد ڈپٹی اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل تعینات کیے تھے۔

پی بی سی کے اعلامیے کے مطابق ’ایسے وقت پر جب انتخابات قریب ہیں متعدد لا افسران کو برطرف کرنے کے بعد نئی تعیناتی دھاندلی کے مترادف ہے‘۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’حکومت کی جانب سے مذکورہ اقدام انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے جس کی وکلا برادری مذمت کرتی ہے‘۔

یہاں یہ یاد رہے کہ ایس سی بی اے کے انتخابات رواں ماہ کے آخری ہفتے میں ہوں گے۔

واضح رہے کہ جون میں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کے خلاف جاری شوکاز نوٹس کو معطل کردیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے پاکستان لیگل پریکٹشنرز اینڈ بار کونسلز رولز 1976 کی شق 84 (اے)، پاکستان لیگل پریکٹشنر اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 کی شق 12(8) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں