'ریاست ہی ناانصافی پر اتر آئی، افسران کو دھمکا کر وعدہ معاف گواہ بنایا جارہا ہے'

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2019
سابق وزیراعظم کو ایل این جی کیس میں عدالت میں پیش کیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیراعظم کو ایل این جی کیس میں عدالت میں پیش کیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے عدالتی ریمانڈ میں 28 اکتوبر تک توسیع کردی۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایل این جی کیس کی سماعت کی، جہاں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور شیخ عمران کو پیش کیا گیا۔

دوران سماعت شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ ڈیڑھ سال سے کیس چل رہا ہے، نیب ابھی تک کوئی ریفرنس نہیں بنا سکا، نیب کو سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کیس بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں جیل میں اپنے ساتھیوں سے نہ ہی ملنے دیا جارہا اور نہ ہی وکلا سے، جب تک ہم اکٹھے نہیں بیٹھیں گے اس کیس کا دفاع کیسے کریں گے۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

شاہد خاقان عباسی نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کیس کے ملزمان کو جیل میں مل بیٹھنے کا حکم جاری کرے، پوری مشینری ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے، عدالت اور جج کے احکامات پر بھی عمل نہیں ہورہا۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عدالت ہمیں اپنے دفاع کے لیے لیپ ٹاپ استعمال کرنے، مستقل بنیادوں پر وکلا سے مشاورت اور ملاقات کی اجازت دے۔

عدالت میں اپنے بیان میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کو بہت شوق ہے تو ہمیں پہلے رہا کرے اور پھر دوبارہ گرفتار کرے، اس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ جیل حکام سے پوچھیں گے کہ ملزمان کی جیل میں ملاقات کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔

ساتھ ہی جج نے استفسار کیا کہ کیا آپ سب کا وکیل مشترکہ نہیں ہو سکتا؟ جس پر شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمٰعیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں ہم سب کے الگ الگ وکیل ہیں۔

سماعت کے دوران مفتاح اسمٰعیل کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ان کے موکل کو جیل میں پرہیزی کھانا بھی نہیں فراہم کیا جارہا جبکہ ملزمان کو اہل خانہ سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں، لہٰذا اس کی اجازت دی جائے، جس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ اگر جیل مینوئل میں لکھا ہے تو میں تب ہی اجازت دوں گا۔

عدالتی ریمارکس پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان کا میڈیکل بورڈ بنایا گیا لیکن رپورٹ فراہم نہیں کی گئی، لہٰذا عدالت، حکام سے میڈیکل رپورٹ منگوائے۔

اس پر عدالت نے میڈیکل رپورٹ، لیپ ٹاپ کے استعمال اور ملزمان کی آپس میں ملاقات سے متعلق جیل حکام سے جواب طلب کرلیا، بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

حکومت صرف جعلی کیسز بنا رہی ہے، شاہد خاقان عباسی

علاوہ ازیں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی اور کہا کہ آج تک کرپشن کا کوئی چارج ہم پر ہے نہ ہی نواز شریف پر، صرف گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں ثبوت کوئی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ثبوت ہوں گے تو کچھ ثابت کرسکیں گے، حکومت صرف جعلی کیسز بنا رہی ہے، ریاست ہی ناانصافی پر اتر آئی ہے اور سرکاری و ریٹائرڈ افسران کو دھمکیاں دے کر وعدہ معاف گواہ بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی کے ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ کیس نہ چلیں گے نہ تاریخ ان کو معاف کرے گی، ہم یہ سب برداشت کرلیں گے لیکن شاید یہ حکومت برداشت نہ کرسکے۔

اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ آپ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں شرکت کریں گے تو اس پر شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ آزادی مارچ ہی سب سے بڑی کامیابی ہے حکومت ناکام ہو چکی ہے لیکن اس مارچ میں شرکت کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔

ایل این جی کیس

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو نے ایل این جی کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمنل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد رواں برس اپریل میں حکومت نے 36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ (جون) میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں