یورپی یونین نے ترکی پر اقتصادی پابندی لگانے کی دھمکی دے دی

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2019
ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ترک صدر کی دھمکی کا کوئی جواز نہیں بنتا—فوٹو: اے ایف پی
ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ترک صدر کی دھمکی کا کوئی جواز نہیں بنتا—فوٹو: اے ایف پی

یورپی یونین نے شام میں کردوں کے خلاف ترکی کے حملوں کے بعد انقرہ پر پابندی لگانے کی دھمکی دے دی۔

دوسری جانب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا کہ اگر انقرہ سے تعاون نہیں کیا گیا تو وہ 36 لاکھ پناہ گزینوں کے لیے یورپ میں داخل ہونے کے لیے ’دروازہ کھول‘ دیں گے۔

مزیدپڑھیں: ترکی کا شام میں 342 کرد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ

خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق برسلز میں یورپی یونین کی حکومتوں نے پہلے بھی ترک صدر کے اس بیان کی مخالفت کی تھی، جس میں انہوں نے پناہ گزینوں کو یورپ میں داخل کرنے کا کہا تھا۔

اس حوالے سے یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’پناہ گزینوں کو بطور ہتھیار اور بلیک میل کیے جانے کے عمل کو قبول نہیں کیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ترک صدر کی دھمکی کا کوئی جواز نہیں بنتا‘۔

دوسری جانب اٹلی کے وزیراعظم جوزپیے کونٹے نے ترک صدر پر بلیک میل کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ عسکری آپریشن فوری طور پر ختم کردینا چاہیے۔

ساتھ ہی فرانس نے بھی ترکی پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی تجویز پیش کی ہے، اس کے علاوہ سویڈن کی پارلیمنٹ نے اسلحہ کی فراہمی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: شام: ترکی کے کرد ٹھکانوں پر حملے، 8 جنگجوؤں سمیت 15 افراد ہلاک

ادھر انقرہ پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے 14 تاریخ کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جبکہ یونان اور قبرص نے جنوبی قبرص میں گیس کے لیے ڈرلنگ کے تنازع پر انقرہ پر اقتصادی پابندی کا مطالبہ کردیا۔

تمام معاملے پر ایک عہدیدار نے بتایا کہ یورپی یونین ترکی میں شام کے پناہ گزینوں کےلیے6 ارب 63 کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کررہا ہے۔

واضح رہے کہ شامی کرد جنگجوؤں کو ترکی دہشت گرد قرار دیا ہے اور گزشتہ روز ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آکار نے دعویٰ کیا تھا کہ شام میں آپریشن کے آغاز سے اب تک 342 کرد دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کردیا

علاوہ ازیں شامی مبصر کا کہنا تھا کہ 4 روز سے جاری ترک حملے میں اب تک صرف 8 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو 'دہشت گرد' ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے فوج کو کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔

شام میں فوجی کارروائی کے تازہ سلسلے پر متعدد ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا جارہا کہ اس سے خطے کے بحران میں اضافہ ہوگا، تاہم ترکی کا کہنا تھا کہ کارروائی کا مقصد خطے کو محفوظ بنانا ہے تاکہ لاکھوں مہاجرین کو شام واپس بھیجا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں