پشاور میں افغان قونصل خانے کی احتجاجاً بندش پر افسوس ہے، دفترخارجہ

13 اکتوبر 2019
افغانستان نے ایک روز قبل قونصل خانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا—فوٹو:سراج الدین
افغانستان نے ایک روز قبل قونصل خانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا—فوٹو:سراج الدین

پاکستان نے افغان وزارت خارجہ کی جانب سے پشاور میں مارکیٹ کے حوالے سے دیے گئے بیان کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجاً قونصل خانے کی بندش پر افسوس کا اظہار کردیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘افغان وزارت خارجہ کی جانب سے پشاور میں ایک مارکیٹ کے حوالے سے جاری بیان کو مسترد کرتے ہیں’۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ معاملے کو مسخ کیا گیا اور غلط رنگ دیا گیا اور اس سے متعلقہ واقعات کو پیش کیا گیا’۔

ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ واضح رہے کہ مارکیٹ کا معاملہ ایک شہری اور افغانستان سے متعلق بینک کے درمیان تھا اور 1998 میں مقدمے کا فیصلہ شہری کے حق میں دیا گیا تھا’۔

مزید پڑھیں:پشاور: بازار سے پرچم ہٹانے پر افغان قونصل خانہ احتجاجاً بند

افغان وزارت خارجہ کے موقف کو رد کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘مقامی انتظامیہ نے حالیہ کارروائی افغان فریق کی جانب سے اس قانونی مسئلے کو ختم کرنے کے بعد قانونی مداوا کے طور پر کی’۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم پاکستان کے عدالتی عمل پر کسی قسم کے بیان کو مسترد کرتے ہیں’۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں افسوس ہے کہ اس موقع پر پشاور میں افغان قونصل خانے کو احتجاجی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے’۔

افغان حکومت کی جانب سے اس اعلان پر نظر ثانی کی امید ظاہر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں امید ہے کہ اس قدم کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے گا اور ایک نجی قانونی معاملے سے دو برادر ممالک کے تعلقات میں برا اثر نہیں پڑے گا’۔

خیال رہے کہ افغانستان نے 11 اکتوبر کو پشاور میں اپنے قونصل خانے کو ایک مارکیٹ سے افغان پرچم ہٹائے جانے پر بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پشاور میں افغانستان کا پرچم آویزاں کرنے والا افغان شہری گرفتار

پشاور میں افغان قونصل جنرل محمد ہاشم نیازی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی درخواست کے باوجود پشاور پولیس اور مقامی انتظامیہ مارکیٹ میں داخل ہوئی اور مارکیٹ کے اوپر لگا ہوا افغان پرچم اتار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ انتظامیہ نے پرچم کیوں اتارا، حکومت افغانستان اس فعل کی سخت مذمت کرتی ہے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ افغان حکومت یہ معاملہ پاکستانی حکام کے ساتھ اٹھائے گی لیکن اس وقت ہم احتجاجاً اپنا کام روک کر قونصل خانہ بند کررہے ہیں۔

افغان مارکیٹ کا معاملہ ہے کیا؟

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں واقع افغان مارکیٹ پر کئی عشروں سے ایک مقامی شخص نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ یہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔

دوسری جانب افغان سفارتخانے کا موقف ہے کہ یہ مارکیٹ افغان حکومت نے تقسیم ہند سے پہلے خریدی تھی اور آج تک افغان نیشنل بینک کی ملکیت ہے۔

مزید پڑھیں:پاکستانی پرچم نذر آتش کیے جانے کے بعد پاک-افغان بارڈر بند

اس کے حوالے سے افغان مارکیٹ کی انجمن تاجران کے چیئرمین نے بتایا کہ اس مارکیٹ پر سید زوار حسین نامی شخص کی جانب سے ملکیت کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس شخص کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا، ان کے مطابق سید زوار کے نام پر قبضہ مافیا اس مارکیٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 1971 سے اس مارکیٹ پر مذکورہ دعوے دار اور افغان حکومت کے درمیان پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات چلے اور جنوری 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سید زوار حسین کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جو افغان حکومت تسلیم نہیں کرتی۔

اس حوالے سے افغان سفارتخانے کے حکام کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ پاکستان کا یہ فیصلہ یک طرفہ ہے۔

دوسری جانب شوکت جمال کشمیری، جن کے پاس مدعی کا مختار نامہ ہے، کہتے ہیں کہ سید زوار حسین کے والد کو یہ جگہ 1989 میں اُس جائیداد کے بدلے میں الاٹ کی گئی تھی جو اُنہوں نے پاکستان بننے کے بعد بھارت میں چھوڑی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں