خیبرپختونخوا: غیر حاضری، جعلی ڈگری پر 104 اساتذہ برطرف

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2019
جعلی ڈگری کے حامل اساتذہ کی بڑی تعداد کو برطرف کیے جانے کا امکان ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جعلی ڈگری کے حامل اساتذہ کی بڑی تعداد کو برطرف کیے جانے کا امکان ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

خیبرپختونخوا کی حکومت نے صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کے 104 ایلیمنٹری اور سیکنڈری اساتذہ کو مسلسل غیر حاضری اور جعلی ڈگری پر ملازمت حاصل کرنے پر برطرف کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں محکمہ تعلیم کے افسر نے بتایا کہ سابق وفاق کے زیر اتنظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں اساتذہ کی تعیناتی سے متعلق امور میں بری طرح متاثر تھے۔

مزید پڑھیں: صوبے کے ایک لاکھ 35ہزار اساتذہ ریاضی، سائنس نہیں پڑھا سکتے،وزیر تعلیم

انہوں نے بتایا کہ صوبائی محکمہ تعلیم کی جانب سے کلاس چہارم کے ملازمین سے لے کر بی پی ایس 20 پرنسپل تک کے تمام امور کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ جعلی ڈگری کے حامل اساتذہ کی بڑی کھیپ کو برطرف کیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ گریڈ 17 کے 46 سینئر اساتذہ ملازمین برطرف کیے گئے جبکہ دیگر پرائمری اسکول ٹیچرز اور کم گریڈ کے ملازمین ہیں۔

محکمہ تعلیم کے افسر نے بتایا کہ مہمند، باجوڑ، خیبر قبائلی اضلاع سے 13-2012 کے درمیانی عرصے میں جعلی ڈگری کی بنیاد پر بڑی تعداد میں سینئر ٹیچر کو ملازمتیں دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: تعلیمی انقلاب کیسے آئے گا؟

شمالی و جنوبی وزیرستان سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کو دونوں اضلاع تک رسائی حاصل نہیں لیکن ادھر بھی جعلی ڈگری پر تعیناتی ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز غیر حاضر اور جعلی ڈگری والے اساتذہ کے خلاف کرمنل مقدمات دائر کریں گے‘۔

رابطہ کرنے پر وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ضیا اللہ بنگش نے بتایا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو قبائلی اضلاع کے تمام ملازمین کی ڈگریاں اور تعلیمی اسناد کی تصدیق کرانے کی ہدایت کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک طرف قبائلی اضلاع میں ملازمتوں کا فقدان ہے تو دوسری طرف سرکاری محکموں میں قانون کے خلاف بھرتیاں ہوئیں‘۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے تعلیمی اصلاحات کو اپنی حکومت کا مرکزی ہدف قرار دیا تھا۔

مزیدپڑھیں: غیرقانونی بھرتیاں: سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر فردِ جرم عائد

ان کے ابتدائی 100 دن کے ایجنڈا میں 'سماجی خدمات میں انقلابی تبدیلیوں' کی بات کی گئی تھی جس میں صحت اور تعلیم بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی ایمرجنسی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، جہاں بچوں کو رسمی نظامِ تعلیم میں لانا ترجیح ہونی چاہیے، وہیں اس سے بھی زیادہ بڑی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اسکول جانے والے بچوں کو معیاری تعلیم ملے۔

2007 میں ہونے والی ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میں اس حوالے سے ٹھوس ثبوت سامنے آئے تھے کہ معاشی ترقی اور معاشرتی مساوات کی بنیاد اسکول میں گزارے گئے سال نہیں بلکہ معیارِ تعلیم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں