سپریم کورٹ: 'جسٹس قاضی فائز کے خلاف کیس کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے'

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2019
سپریم کورٹ کے سینئر جج کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے سینئر جج کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جج کے وکیل منیر اے ملک نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف کیس کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر عدالت میں موجود ایک وکیل اجمل محمود نے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ میں نے آپ کے خلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے، آپ بینچ سے الگ ہو جائیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ میرے خلاف ریفرنس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی، اسی دوران جسٹس مقبول باقر نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ روسٹرم سے ہٹ جائیں۔

مزید پڑھیں: حکومت عدلیہ کو تابعدار بنانا چاہتی ہے، جسٹس قاضی فائر عیسیٰ

ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا لہجہ درست نہیں ہے، اس پر وکیل نے کہا کہ مجھ پر توہین عدالت لگانی ہے تو لگالیں عدالت سے نہیں جاؤں گا۔

عدالت میں پیش آنے والی اس صورتحال پر فل کورٹ نے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو طلب کر لیا، جس پر وہ عدالت میں آئے اور وکیل کو روسٹرم سے ہٹا دیا، جس پر وکیل نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میرے ریفرنس پر کیا کارروائی ہوئی۔

علاوہ ازیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اجمل محمود نے 5 جولائی 2017 کو میرے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا، کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لینے کے بعد نمٹا دیا تھا۔

اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کو ہدایت کی کہ بار کے صدر اس روسٹم کے کسٹوڈین ہیں، آپ کو اس روسٹرم کا دفاع کرنا ہے، آپ نے دیکھا وکیل کس طرح سے عدالت سے نکل رہا تھا، جس پر انہوں نے کہا کہ میں آئندہ روسٹرم کا سیف گارڈ کروں گا۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل دینا شروع کیے۔

منیر اے ملک نے عدالت میں کہا کہ کسی معزز جج کے خلاف تعصب یا ذاتی عناد کا الزام نہیں لگایا، فل کورٹ اور الگ ہونے والے ججز پر کوئی اعتراض نہیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ نے ساتھی ججز پر اعتراض مسترد کردیا تھا، جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اس معاملے میں بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر دباؤ ڈالنا ہے، اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کے لیے لوگوں نے جانوں کے نذرانے دیے۔

ساتھ ہی اپنے موکل پر لگائے گئے الزامات پر انہوں نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2004 میں لندن کا پہلا فلیٹ لیا، اس فلیٹ کو خریدنے کے 5 سال بعد جسٹس عیسیٰ جج بنے۔

انہوں نے بتایا کہ 2013 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں نے دوسرا اور تیسرا فلیٹ لیا، اس وقت ان کے موکل چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھے۔

منیر اے ملک نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے مالک نہیں جبکہ وہ بینیفشل مالک بھی نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جج کے خلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرہ نہیں، اٹارنی جنرل

دلائل کو جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل پر بے ایمانی یا کرپشن کا کوئی الزام نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور صدر پاکستان دونوں آئینی عہدے رکھتے ہیں، توقع ہے کہ فریقین آئینی عہدوں کے تقدس کا خیال رکھیں گے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اعلیٰ آئینی عہدوں پر بیٹھے افراد کے اخراجات سے اختلاف ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، ریفرنس دائر ہونے سے پہلے جسٹس عیسیٰ کے خلاف شکایت آئی، جس کے بعد متعلقہ مواد جمع کیا گیا۔

وکیل نے بتایا کہ صدر مملکت نے تیسرے درجے پر اپنی رائے قائم کی جبکہ چوتھے مرحلے میں باضابطہ طور پر ریفرنس دائر کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جوڈیشل کونسل نے جس انداز میں کارروائی کی وہ بھی سامنے لائیں گے، 28 مئی 2019 سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کردار کشی کی مہم جاری ہے، لائرز ایکشن کمیٹی اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ بھی ریفرنس پر بات کرتے ہیں جبکہ صدر مملکت اور معاون خصوصی برائے اطلاعات نے بھی اس صدارتی ریفرنس پر بات کی۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مستقبل میں چیف جسٹس بننا ہے، ان کے موکل کو اب اپنے دفاع کا موقع عدالت میں ملا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ کہا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ جج بننے کے اہل نہیں جبکہ ان کے موکل کے والد قائد اعظم کے قریبی دوست تھے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کی لا فرم سب سے زیادہ ٹیکس دیتی تھی۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ 2009 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمدن 3 کروڑ 60 لاکھ روپے تھی، جج بنے تو سالانہ تنخواہ ماہانہ آمدن کے برابر آگئی۔

دوران سماعت وکیل نے مزید کہا کہ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ درخواست گزار پر کبھی کرپشن کے الزامات نہیں لگے، درخواست گزار اور فریقین ملک کے اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز ہیں، ہم اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

سماعت کے دوران منیر اے ملک نے کہا کہ میں عدالت کو اس معاملے کے پس منظر میں لے جانا چاہتا ہوں اور میں اس درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا جبکہ آرٹیکل 248 کی شق پر بھی دلائل دوں گا، میرے دلائل ریفرنس کی قانونی حیثیت سے متعلق ہیں کہ کیوں ریفرنس خارج ہو۔

اپنے دلائل دیتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔

منیر اے ملک نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دھرنا کیس سے متعلق فیصلہ دیا، جس میں پی ٹی آئی، شیخ رشید احمد اور دیگر کا ذکر کیا گیا جبکہ پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں وکلا کا سرعام قتل کا بھی حوالہ دیا گیا۔

اسی طرح تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کو بھی آشکار کیا جبکہ اصغر خان کیس میں خفیہ ایجنسیوں کی سیاسی مداخلت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی چیف جسٹس سے اپنے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی درخواست

منیر اے ملک کے دلائل پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے کتنے عرصے بعد ریفرنس دائر ہوا، اس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ 10 اپریل 2019 کو وحید ڈوگر کی شکایت موصول ہوئی جبکہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ 6 فروری 2019 کو سنایا گیا تھا۔

اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالتی فیصلے کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہوسکتا ہے، جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وزیر قانون جانتے ہیں کہ جج کو اس انداز میں نہیں ہٹایا جاسکتا۔

ساتھ ہی منیر اے ملک نے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی نظرثانی درخواست وزارت دفاع کی درخواست سے زیادہ سخت ہے، جس پر جسٹس منیر اختر نے کہا کہ ان درخواستوں کا حوالہ نہ دیں جو واپس لی جا چکی ہیں۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ بنیادی طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مائنڈ سیٹ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے دائر درخواست واپس نہیں لی گئی تھی۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2 الگ وکلا نے درخواستیں دائر کی تھیں، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں اتحادی جماعتیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی درخواستوں میں ایک جیسے سوالات اٹھائے گئے، اس پر جسٹس منیر اختر نے کہا کہ حیرت ہے ایم کیو ایم کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض نہیں لگایا، ساتھ ہی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ کسی کے دماغ کو نہیں پڑھ سکتے، نظر ثانی درخواستوں پر متعلقہ عدالت فیصلہ کرے گی۔

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نظر ثانی درخواست میں جج کے خلاف کارروائی کا کہا گیا تھا، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ 7 ماہ سے نظرثانی درخواست پر سماعت نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر قانون کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ وزیراعظم عمران خان ہے، جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جج کو ضمیر کی آواز تک بینچ سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مشترکہ کوشش کی، فیض آباد دهرنا کیس کا فیصلہ دو رکنی بینچ کا تها، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ اگر ریفرنس 2 ججز کے خلاف ہوتا تو کیا بدنیتی نہ ہوتی، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ریفرنس دونوں ججز کے خلاف ہوتا تو میرا موقف مختلف ہوتا۔

اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے درخواست گزار چاہتے ہوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس نہ سنیں، دونوں درخواستیں ایک ہی فونٹ میں لکهی گئیں، ساتھ ہی جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے دونوں جماعتوں کے وکلا نے ڈرافٹ کا تبادلہ کیا ہے، دونوں جماعتوں نے کمپیوٹر بهی ایک ہی استعمال کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

بعد ازاں طویل دلائل دینے کے بعد منیر اے ملک نے کہا کہ خرابی طبیعت کے باعث زیادہ دلائل نہیں دے سکتا، جس پر کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرانا خلاف ورزی ہے، جسٹس عیسیٰ کا جواب الجواب

قبل ازیں سپریم جوڈیشل کونسل کے جواب پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا جواب الجواب عدالت عظمیٰ میں جمع کروادیا۔

اپنے جواب الجواب میں انہوں نے موقف اپنایا کہ کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرانا خلاف ورزی ہے، کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں۔

جسٹس عیسیٰ نے اعتراض اٹھایا کہ کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی اجازت دینے کا ریکارڈ موجود نہیں، اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دینے کا پابند ہے نہ کہ وہ نجی پریکٹس کرے۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ سپریم کورٹ، سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے دائرہ اختیار سے باہر جانے پر ان کے خلاف متعلقہ اداروں کو کاروائی کا حکم دے چکی ہے، لہٰذا کونسل کو اختیار حاصل نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمہ داری دیتی، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل تفویض کرنا آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض کیا کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں، لہٰذا انہیں کسی ایسی کارروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا جس کے لیے وفاقی حکومت نے انہیں مختص نہیں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ درخواست میں لگائے گئے الزامات پر کونسل اور سیکریٹری کی جانب سے مناسب جواب نہ آنے کی صورت میں الزامات کو تسلیم شدہ تصور کیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی درخواست،'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں