محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی سے کی گئیں 845 تعیناتیاں معطل

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2019
قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیوں کا  تصور دنیا کا انتہائی عجیب قانون ہے، درخواست — فائل فوٹو: اے ایف پی
قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیوں کا تصور دنیا کا انتہائی عجیب قانون ہے، درخواست — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے 845 افراد کی تعیناتیاں معطل کردیں اور درخواست میں نامزد فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلویز ایمپلائیز (پریم) یونین کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس محمود مرزا نے ملازمین کی معطلی کا حکم دیا۔

سی بی اے کا دعویٰ ہے کہ 845 ملازمین میں سے زیادہ تر کا تعلق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور ان کے بھتیجے شیخ رشید شفیق کے حلقے سے ہے۔

جسٹس محمود مرزا نے اس حوالے سے جاری حکم میں کہا کہ ’ میں تمام فریقین ( سیکریٹری، جنرل مینیجر سروسز، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اور ڈویژنل افسر ریلوے ) سے جواب سننا چاہتا ہوں، فریقین کے لیے 9 دسمبر 2019 کا نوٹس جاری کیا جائے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیوں کا آغاز

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ’ قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیوں کا عمل آئندہ سماعت تک معطل رہے گا‘۔

پریم یونین کے وکیل ایڈووکیٹ عمران شفیق نے عدالت کو بتایا کہ یونین، پاکستان ریلوے کے کلیکٹو بارگینگ ایجنٹ (سی بی اے ) نے فریقین کی جانب سے قرعہ اندازی کے ذریعے ملازمین کی بھرتیوں سے متعلق فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ ’ کوئی قانون یا ضابطہ قرعہ اندازی کے ذریعے ملازمین کی بھرتیوں کی اجازت نہیں دیتا‘۔

درخواست کے مطابق ریلوے حکام نے اکتوبر 2018 میں بی ایس 1 سے بی ایس 5 تک کی 323 آسامیوں کے لیے اشتہار دیا تھا۔

جس کے صرف ایک ماہ بعد ایک اور اشتہار دیا گیا اور خالی آسامیوں کی تعداد 322 سے بڑھا کر 845 تک کردی گئی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان ملازمتوں کے لیے ہزاروں افراد نے اپلائی کیا لیکن تعیناتیاں میرٹ کے بجائے قرعہ اندازی کے ذریعے کی گئیں جبکہ ’قرعہ اندازیوں کے ذریعے تعیناتیاں ملکی قوانین کے برعکس' ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی سے کی گئیں تعیناتیاں عدالت میں چیلنج

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’ قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیوں کا تصور دنیا کا انتہائی عجیب قانون ہے، وہ امیدوار جنہوں نے مہارت اور تحریری امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے اور انٹرویو میں اپنی قابلیت ثابت کی ہو وہ میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کے مستحق تھے‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’ تاہم ریلوے حکام نے اس معیار کو تبدیل کرتے ہوئے کامیاب امیدواروں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال کر ان کی قسمت کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا‘۔

قرعہ اندازی کو چینلج کرنے کے علاوی پریم یونین نے درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ’ ںصف سے زائد کامیاب امیدواروں کا تعلق وزیر ریلوے کے حلقے سے ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ روالپنڈی ڈویژن (پاکستان ریلوے ڈویژن) میں قومی اسمبلی کے تقریبا 29 حلقوں میں سے زیادہ تر امیدوار صرف شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ رشید شفیق کے حلقے سے کامیاب ہوئے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں