منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے فریم ورک تیار

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2019
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو فریم ورک پر عملدرآمد کی ہدایت کردی گئی—فائل فوٹو: رائٹرز
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو فریم ورک پر عملدرآمد کی ہدایت کردی گئی—فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے بینکاری چینلز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایک جامع فریم ورک تیار کرلیا گیا ہے۔

اس حوالے سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ 'تجارت سے متعلق انسداد منی لانڈرنگ کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت (اے ایم ایل/سی ایف ٹی) کا مقابلہ کرنے اور بینکاری چینلز کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس معاملے ایک جامع فریم ورک بنایا گیا ہے'۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے تصدیق شدہ ڈیلرز (بینکوں) کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سسٹم اور کنٹرول کو اپ گریڈ کریں اور پالیسیز اور طریقہ کار کو فریم ورک کی ضروریات کے مطابق لائیں تاکہ فوری طور پر ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے۔

مزید پڑھیں: پاکستان آئندہ برس فروری تک ایف اے ٹی ایف کی ‘گرے لسٹ‘ میں موجود رہے گا

مرکزی بینک کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ہے کہ اس فریم ورک کی نکات اضافی ہیں اور انہیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملے پر پہلے سے جاری ہدایات کی متبادل نہیں ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اس کی تعمیل ڈیلز کو مروجہ اے ایم ایل/سی ایف ٹی قوانین اور قواعد و ضوابط یا کوئی دیگر متعلقہ قانون کے تحت ان کی قانونی اور ضابطے کی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہیں دے گی۔

تصدیق شدہ ڈیلرز کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے صارف کو مقررہ فارمز پر صحیح معلومات بتانے، جس مقصد کے لیے زرمبادلہ حاصل کیا گیا اسی کے لیے اس کا استعمال اور غیرملکی زرمبادلہ کی واپسی جو برآمدات کی مکمل مالیات کو بیان کرے، ان ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ میں ملوث عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، وزیر اعظم

ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے خبردار کیا ہے کہ 'اگر یہ معلوم ہوا کہ مقررہ فارمز پر درکار معلومات کو نظرانداز کیا گیا، ڈیلر کے صارف کی جانب سے غیرملکی زرمبادلہ کا غلط استعمال یا کسی صارف کی جانب سے بھیجی گئی برآمدات کی واپسی مال کی مکمل مالیات کو ظاہر نہ کرے تو ایس بی پی ایسے فریقین کے خلاف پینل ایکشن کا آغاز کرے گا'۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پھر اس معاملے پر قوانین کے مطابق مزید کارروائی کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھی رپورٹ کیا جائے گا۔


یہ خبر 16 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں