طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے امریکی سیکریٹری دفاع افغانستان پہنچ گئے

20 اکتوبر 2019
مارک ایسپر کا بطور سیکریٹری دفاع یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے—فوٹو:رائٹرز
مارک ایسپر کا بطور سیکریٹری دفاع یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے—فوٹو:رائٹرز

امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ اچانک معطل ہونے والے مذاکرات کی بحالی کے لیے افغانستان پہنچ گئے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ‘مقصد اب بھی یہی ہے کہ کسی نکتے پر امن معاہد یا سیاسی معاہدہ ہوجائے جو آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے’۔

امریکی سیکریٹری دفاع اس دورے میں افغان صدر اشرف غنی اور افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں سے ملاقات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے امید ہے کہ ہم ایک سیاسی معاہدے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں جو ہماری واپسی اور جو مقاصد ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کے مطابق ہوگا’۔

انہوں نے واضح کیا کہ مذاکرات کرنا اسٹیٹ ڈپارٹنمنٹ کا کام ہے۔

مزید پڑھیں:افغان امن عمل: طالبان سے مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ

افغانستان سے فوج کی دستبرداری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکا، افغانستان میں اپنی فوج کی موجودہ تعداد کو 14 ہزار سے کم کرکے 8 ہزار 600 تک لاسکتا ہے جس سے انسداد دہشت گردی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 اکتوبر کو ایک ایسے وقت میں طالبان کے ساتھ مذکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جب دونوں فریقین طویل عرصے تک گفت و شنید کے بعد کئی نکات پر متفق ہوچکے تھے اور حتمی معاہدے کا عندیہ دیا جا چکا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اچانک ٹویٹ کے بعد افغان طالبان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے امکانات موجود ہیں لیکن یہ امریکا کی ضرورت ہے۔

تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے بعد افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان سے ہونے والے 'مذاکرات' کی تاریخ

افغانستان کے لیے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے رواں ماہ اسلام آباد میں طالبان کے وفد سے ملاقات کی تھی تاہم حکام کے مطابق یہ ملاقات مذاکرات کی باقاعدہ بحالی سے متعلق نہیں تھی۔

امریکی انتظامیہ کے متعدد اراکین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی اچانک معطلی کے معاملے پر زلمے خلیل زاد مستعفی ہوجائیں گے۔

رائٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ کی جانب سے شام سے تمام فوجیوں کے انخلا کے اچانک اعلان کے بعد اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ٹرمہ افغانستان سے فوج کی واپسی پر سنجیدہ ہیں۔

مزید پڑھیں:افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی

خیال رہے کہ مارک ایسپر کا بطور امریکی سیکریٹری دفاع یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے جبکہ جنگ زدہ افغانستان کی سیاسی اور سیکیورٹی صورت حال بدستور غیر یقینی کا شکار ہے۔

افغانستان میں دو روز قبل نماز جمعہ کے دوران مسجد میں بم دھماکے سے 69 نمازیوں کے جاں بحق ہونے کے بعد اپنے بیان میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ واشنگٹن، افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پرعزم ہے۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں منعقدہ افغان صدارتی انتخاب پر ملک میں ایک مرتبہ پھر طویل سیاسی غیر یقینی کے بادل منڈلارہے ہیں کیونکہ موجودہ صدر ا شرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ دونوں کامیابی کا دعویٰ کرچکے ہیں۔

صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان بھی تیکنیکی وجوہات کے باعث ملتوی ہوچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں