سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے گیس کے تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2019
وفاقی حکومت کی ترجمانی ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کی —فائل فوٹو: اے ایف پی
وفاقی حکومت کی ترجمانی ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کی —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تمام ہائی کورٹس سے گیس ڈیولپمنٹ انفراسٹرکچر سیس (جی آئی ڈی سی) 2015 سے متعلق تمام زیر التو مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس مشیرعالم نے طویل سماعت کے بعد عدالتی حکم نامہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ’تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار جی آئی ڈی سی 2015 سے متعلق تمام مقدمات کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کریں اور متعلقہ قونصل کو بھی نوٹی فکیشن ارسال کردیے جائیں‘۔

مزیدپڑھیں: گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس بل منظور

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اگر متعلقہ وکلا مقدمات کی سماعت کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو وہ پیش ہوں، تاہم ساتھ ہی یہ آپشن دیا گیا ہے کہ وہ خود سپریم کورٹ میں پیش ہوں یا پھر ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی حاضری یقینی بنائیں۔

واضح رہے کہ اس سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی ترجمانی ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کی جبکہ 29 اکتوبر سے مذکورہ مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہونے کا عندیہ بھی دے دیا۔

دوران سماعت بینچ کے ایک اور رکن جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں مذکورہ مقدمات زیر التو ہیں‘۔

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر سی این جی اسٹیشن مالکان کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ کراچی رجسٹرری کے کمرہ عدالت میں موجود تھے اور کراچی رجسٹرری، اسلام آباد میں سپریم کورٹ سے بذریعہ ویڈیو لنک منسلک تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گیس کے بلوں کی حتمی تاریخ میں اضافے کا اعلان

اس دوران جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ’نیکسٹ جنریشن کی عدالت میں خوش آمدید‘۔

دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق 2012 سے 2018 کے درمیان جی آئی ڈی سی کے مقدمات میں پھنسی رقم 417 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔

اپنی درخواست میں حکومت نے کہا کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 سے متعلق تمام مقدمات میں خطیر ریونیو شامل ہے، تاہم 2017 سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سے معاملات زیر التو ہیں۔

خیال رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 31 مئی 2017 کو جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

مزیدپڑھیں: گیس پر متنازع ٹیکس کا بل سینیٹ سے بھی منظور

عدالت کے مطابق وفاق کی جانب سے قانون ساز اتھارٹی میں تبدیلی شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 2015 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیپلز پارٹی کی حمایت سے پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی مخالفت کے باوجود گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل قومی اسمبلی سے منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

اس وقت کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل پیش کیا تھا۔

گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس بل

جب یہ بل پیش کیا گیا تھا اس وقت سابق وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس کے تحت 3 سال تک پیسے وصول کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا تھا گیس سیس سے سالانہ 100 ارب روپے حاصل ہوں گے اور گیس سیس بل کے تحت صرف انہی صارفین سے سرچارج لیا جائے گا جو ایل این جی استعمال کریں گے۔

مزیدپڑھیں: گیس 38 فیصد تک مہنگی کرنے کی منظوری

بل میں صنعتی، فرٹیلائزر، سی این جی اور پاور جنریشن سیکٹرز پر 1150 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک محصول عائد کرنے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ گھریلو، تجارتی شعبے اور سیمینٹ سیکٹر پر اس کا نفاذ نہیں کرنے کی تجویز تھی۔

سابق حکومت نے بل میں فرٹیلائزرا ور سی این جی سیکٹر سے 3 سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، صنعتی شعبہ سے 150، آئی پی پیز سے 100 روپے، واپڈا اور کے الیکٹرک سے 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سیس لینے کی تجویز دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں