سابق جج ارشد ملک کے بیان سے متعلق دستاویزات کی تصدیق کیلئے دفتر خارجہ کو نوٹس

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2019
اگر ناصر بٹ عدالت میں بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان میں تحفظ کی یقین دہانی کروائی جائے گی — فائل فوٹو: اے ایف پی
اگر ناصر بٹ عدالت میں بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان میں تحفظ کی یقین دہانی کروائی جائے گی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دفترخارجہ اور دیگر حکام کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے مبینہ اعترافات سے متعلق دستاویزات کی تصدیق کی ہدایت جاری کرنے کے لیے نوٹس جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج ویڈیو کیس کے مرکزی کردار ناصر بٹ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائئی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانونی کارروائیوں سے گریز کی وجہ سے درخواست گزار مساوی حقوق کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ناصر بٹ عدالت میں بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان میں تحفظ کی یقین دہانی کروائی جائے گی۔

خیال رہے کہ ناصر بٹ نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر، فرسٹ سیکریٹری سمیت سیکریٹری خارجہ کے خلاف احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے مبینہ اعترافات سے متعلق دستاویزات کی تصدیق نہ کرنے پر درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد

ناصر بٹ نے درخواست میں کہا تھا کہ بارہا پاکستانی ہائی کمیشن جانے کے باوجود متعلقہ حکام خاص طور پر فرسٹ سیکریٹری دیدار علی ابڑو نے ان دستاویزاتی شواہد کی تصدیق نہیں کی جسے وہ پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرواچکے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ناصر بٹ نے 5 اکتوبر کو احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشد ملک کے خلاف شواہد جمع کروائے تھے۔

ناصر بٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے دستاویزات میں ان کے اور جج ارشد ملک کے درمیان گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ کی تصدیق شدہ نقول، بات چیت کی ویڈیو-کم-آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ، درخواست گزار کا بیان حلفی، آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کی فرانزک رپورٹس اور دونوں افراد کے درمیان بات چیت کی اصل آڈیو اور ویڈیو-کم-آڈیو ریکارڈنگز کی نقول پر مشتمل یو ایس بی شامل ہے۔

دوران سماعت ناصر بٹ کے وکیل ناصر بھٹا نے عدالت کو بتایا کہ جج ویڈیو اسکینڈل کیس سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ جج ارشد ملک نے تمام ایماندار، محنتی ججز کو اپنے سر شرم سے جھکانے پر مجبور کردیا۔

وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس کے بیان کے باوجود ارشد ملک کو تمام سہولیات حاصل ہیں اور انہیں وہی اہمیت حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل

ایڈووکیٹ ناصر بھٹا نے کہا کہ درخواست ناصر بٹ کے بیان ریکارڈ کروانے سے متعلق نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بذریعہ ویڈیو لنک اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی پیشکش کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس درخواست میں ناصر بٹ نے پاکستانی ہائی کمیشن کو دستاویز کی تصدیق سے متعلق ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے متعلقہ حکام کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

جج ویڈیو لیک کیس

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں