سپریم کورٹ: مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی بریت کے خلاف نیب کی اپیلیں خارج

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2019
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت کے بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت کے بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی عزیز چوہدری شیر علی اور سہیل ضیا بٹ کی بریت کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیلیں خارج کردیں۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے چوہدری شیر علی اور سہیل ضیا بٹ کی کرپشن مقدمات میں بریت کے خلاف درخواستوں پر الگ الگ سماعت کی۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ چوہدری شیر علی نے بطور میئر غیرقانونی الاٹمنٹ کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر غلط کام اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چوہدری شیر علی 1983 میں میئر تھے جبکہ یہ کیس سال 2000 میں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: نیب کا مقصد صرف پکڑ دھکڑ نہیں،مجرموں کو سزا دلوانا بھی ہے، چیف جسٹس

اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک گواہ نے بھی یہ نہیں کہا کہ چوہدری شیر علی کے خلاف دباؤ میں آکر بیان دیا، نیب کے اپنے گواہ ہی ایسا کہیں گے تو ملزم کو دفاع کی کیا ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کا کام اپنے اثاثوں کو ثابت کرنا ہوتا ہے، جو اثاثے ملزم کے ہیں یا نہیں وہ ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے۔

سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین الدین نے کہا کہ مکی مارکیٹ کا قبضہ بھی چوہدری شیر علی کے پاس نہیں تھا، اس مارکیٹ کی دکانیں ویسے بھی لیز پر تھیں۔

بعدازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب چوہدری شیر علی کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، جن افراد کو زمینوں کی مبینہ غیرقانونی الاٹمنٹ کی گئی، ان کا ملزم سے تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔

ساتھ ہی عدالت نے نیب کی بریت کے خلاف اپیل کو خارج کردیا۔

علاوہ ازیں چوہدری شیر علی کے بعد نواز شریف کے ایک اور قریبی عزیز سہیل ضیا بٹ کو بھی کرپشن کے الزامات میں کلین چٹ مل گئی اور عدالت عظمیٰ نے بریت کے خلاف نیب کی اپیلیں خارج کردیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کی اپیلیں زائد المعیاد ہونے پر خارج کیں۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت نے مریم نواز کے خلاف نیب کی درخواست خارج کردی

تاہم دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز 2 ماہ میں اپیل دائر کرسکتے ہیں، نیب بھی ریاستی ادارہ ہے، اس لیے اپیل کے لیے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم ہونی چاہیے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کے لیے نیب نے کوئی درخواست نہیں دی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ سہیل ضیا بٹ پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے، غیر قانونی معاہدہ کرکے اس پر عمل بھی نہیں کیا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا نیب چاہتا ہے کہ غلط کام پورا نہ کرنے پر بھی سزا ہو؟ اس پر نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ سہیل ضیا بٹ نے غیرقانونی طور پر پیسے وصول کیے اور کام بھی نہیں کیا۔

اس پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ منگل باغ کے پاس بھی لوگ پیسے دے کر کام کروانے جاتے تھے، جنہوں نے غیرقانونی کام کروایا وہ سب بری ہوگئے جبکہ سہیل ضیا بٹ کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں