ایک ہزار سال بعد شادی شدہ مرد حضرات کو ’پادری‘ بنانے کی تجویز

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2019
رپورٹ کے مطابق برازیل سمیت دیگر جنوبی امریکا کے ممالک میں پادریوں کی کمی ہوگئی ہے —فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ کے مطابق برازیل سمیت دیگر جنوبی امریکا کے ممالک میں پادریوں کی کمی ہوگئی ہے —فوٹو: اے ایف پی

جنوبی امریکا کے متعدد ممالک کے کیتھولک مسیحی فرقے سے تعلق رکھنے والے بشپس نے ویٹی کن کو تجویز دی ہے کہ ’شادی شدہ‘ مرد حضرات کو ’پادری‘ مقرر کرنے کی قانونی اجازت دی جائے۔

کیتھولک مسیحی فرقے میں کسی بھی شادی شدہ یا جنسی طور پر متحرک رہنے والے مرد کو ’پادری‘ بننے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی بعض مذہبی عہدے رکھنے والی خواتین کو شادی اور جنسی طور پر متحرک رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔

مسیحیت میں کم سے کم ایک ہزار سال قبل ’پادری‘ اور ’راہبہ‘ سمیت دیگر مذہبی عہدے رکھنے والے افراد کے غیر شادی شدہ ہونے اور ان کے جنسی طور پر غیر متحرک ہونے کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

اگرچہ مسیحیت شادی اور جنسیت کے خلاف نہیں، تاہم مذہبی عہدہ رکھنے والے افراد کو اس طرح کے تعلقات اور رشتوں کی ممانعت ہوتی ہے۔

غیر شادی شدہ افراد کو ہی ’پادری‘ مقرر کیے جانے کی وجہ سے ایمیزون خطے میں موجود کم سے کم 9 جنوبی امریکا کے ممالک کے ہزاروں دور دراز علاقوں میں پادری مذہبی رہنماؤں کی قلت ہوگئی ہے۔

جنوبی امریکا کے مذکورہ ممالک کے ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جہاں کے چرچز میں کوئی پادری مقرر نہیں، اس وجہ سے وہاں کے مسیحی پیروکاروں کو ہفتہ وار عبادتوں سمیت دیگر عبادتوں میں دشواری کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی امریکا کے ممالک کے ہزاروں گاؤں میں پادری نہیں —فوٹو: گارڈین نیوز
رپورٹ کے مطابق جنوبی امریکا کے ممالک کے ہزاروں گاؤں میں پادری نہیں —فوٹو: گارڈین نیوز

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق برازیل سمیت جنوبی امریکا کے 9 ممالک کے بیشتر بشپس نے تجویز دی ہے کہ شادی شدہ افراد کو ’پادری‘ بنانے کی اجازت دیے جانے سے ’پادریوں‘ کی قلت کا معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی امریکا کے 85 فیصد گاؤں کے چرچز کسی پادری سے محروم ہیں، چوں کہ مذکورہ گاؤں دور دراز علاقوں میں واقع ہوتے ہیں، اس لیے وہاں کوئی غیر شادی شدہ شخص ’پادری‘ بن کر جانے کو تیار نہیں اور نہ ہی مقامی سطح پر ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو مذہب کے بہت قریب بھی ہوں اور کنوارے بھی ہوں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی امریکا کے ممالک کے بشپس نے ایک تجویزی بل ویٹی کن سٹی کو بھجوایا ہے، جس میں تجویز دی گئی ہے کہ ایک ہزار سال پرانے مسیحی قوانین کو تبدیل کرکے ’پادری‘ کے لیے کنوارے ہونے کی شرط ختم کی جائے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق بشپس کی جانب سے بھجوائی گئی تجویز پر ویٹی کن سٹی کی دنیا بھر کے 128 اعلیٰ مسیحی مذہبی شخصیات پر مبنی ایک اسمبلی قانون سازی کرے گی۔

مذہبی شخصیات پر مبنی یہ خاص اسمبلی تین ہفتے کے اندر مذکورہ بل کا جائزہ لے کر اس کی قانونی سازی کرے گی اور اس بل کی منظوری میں پوپ فرانسس کا کردار انتہائی اہم ہے۔

مجوزہ بل کی منظوری میں پوپ فرانسس کا کردار اہم ہوگا—فوٹو: اے پی
مجوزہ بل کی منظوری میں پوپ فرانسس کا کردار اہم ہوگا—فوٹو: اے پی

رپورٹ کے مطابق پوپ فرانسس نہ صرف ’شادی شدہ‘ مرد حضرات کو ’پادری‘ بنانے والی مجوزہ بل کے حوالے سے قانونی سازی کے لیے اسمبلی کی صدارت کریں گے بلکہ وہ اس دوران دیگر مجوزہ قوانین کا جائزہ بھی لیں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویٹی کن کی یہ خاص اسمبلی ’چرچز‘ میں ’خواتین‘ کے کردار کے حوالے سے بھی ایک مجوزہ بل پر نظر ثانی کرنے سمیت چرچز کے ماحول اور قوانین پر نظرثانی کرے گی۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ ویٹی کن سٹی کی خصوصی اسمبلی تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے ’پادری‘ کے لیے ’کنوارے‘ ہونے کی شرط ختم کرنے کی منظوری دے گی۔

ساتھ ہی خیال کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اسمبلی نئے قانون کو صرف مخصوص علاقوں یا جنوبی امریکا کے ممالک تک ہی محدود رکھنے کی منظوری دے گی تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

اگر یہ قانون منظور ہوجاتا ہے تو اسے گزشتہ ایک ہزار سال میں مسیحیت میں بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جائے گا۔

خصوصی اسمبلی مجوزہ بل کو تین ہفتوں کے اندر منظور یا مسترد کرے گی—فوٹو: اے پی
خصوصی اسمبلی مجوزہ بل کو تین ہفتوں کے اندر منظور یا مسترد کرے گی—فوٹو: اے پی

تبصرے (0) بند ہیں