نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی میں اعلیٰ فوجی افسران کو شامل کرنے کا امکان

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2019
وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کو این ای سی میں شامل کیا جا سکتا ہے—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کو این ای سی میں شامل کیا جا سکتا ہے—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

دہشت گردی کے لیے مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے بنائی گئی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی (این ای سی) میں پہلی مرتبہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی شمولیت کا امکان ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آج (29 اکتوبر) کو دونوں عسکری افسران کی این ای سی میں شمولیت سے متعلق فیصلہ ہوگا۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا منی لانڈرنگ کیلئے بےنامی کمپنیوں کے مشکوک کردار کا انکشاف

وفاقی کابینہ فنانس ڈویژن کی پیش کردہ درخواست پر فیصلہ کرے گی اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ دو اعلیٰ عہدوں پر فائز فوجی افسران کو کسی قومی کمیٹی میں شامل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ این ڈی سی قومی اور علاقائی تعاون پر مشتمل طویل المعیاد منصوبہ بندی کی منظوری دیتی ہے۔

اس سے قبل رواں برس جون میں وزیراعظم عمران خان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ کو 13 رکنی نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل (این ڈی سی) میں شامل کیا تھا۔

آج کے اجلاس میں وفاقی کابنیہ کے ایجنڈے کے مطابق وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کو بھی این ای سی میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان فروری تک ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عملدرآمد کرلے گا‘

این ای سی میں ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس آئی کی این ای سی میں بطور جنرل کمیٹی (جی سی) رکن شمولیت اے ایم ایل ایکٹ 2010 کی شق 5 اور 5 اے کے تحت کی جائے گی۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں وزیراعظم نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی 27 شرائط پر عملدرآمد کے لیے نئی حکمت عملی کی منظوری دی تھی تاکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلا جا سکے۔

نئی حکمت عملی کی منظوری کے پیش نظر ہی اعلیٰ عسکری حکام اور وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کو این ای سی میں شامل کیا جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہا وفاقی وزیر حماد اظہر کی سربراہی میں 12 رکنی قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) ایف اے ٹی ایف سے متعلق تمام اہداف کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے اور اطلاعات کے مطابق یکم دستمبر سے مذکورہ ادارہ این ای سی کے تحت امور سرانجام دے گا۔

مزیدپڑھیں: پاکستان آئندہ برس فروری تک ایف اے ٹی ایف کی ‘گرے لسٹ‘ میں موجود رہے گا

واضح رہے کہ 18 اکتوبر کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے باضابطہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ 4 ماہ (فروری 2020) تک پاکستان 'گرے لسٹ' میں ہی رہے گا۔

پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے اختتام پر ٹاسک فورس کے صدر شیانگ من لو نے پریس کانفرنس کی اور اس بات کے بارے میں بتایا تھا کہ پاکستان کو مزید 4 ماہ کے لیے اسی فہرست میں رکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی 'بلیک لسٹ' میں شامل کرانے کی کوششیں کی گئیں تھی لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا تھا۔

علاوہ ازیں ایف اے ٹی ایف کے بیان کے مطابق 'اسلام آباد کو ہدایت کی گئی تھی وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مکمل خاتمے کے لیے مزید اقدامات کرے'۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کیا ہے اور پاکستان کی معیشت سے اس کا کیا تعلق ہے؟

یاد رہے کہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے سازگار ماحول اور عدم تعاون پر 2012 میں پاکستان کا اندراج گرے لسٹ میں کردیا گیا تھا جہاں وہ 2015 تک موجود رہا تھا۔

بعد ازاں 29 جون 2018 کو پاکستان کو ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں شامل کیا تھا اور 27 نکات پر مشتمل ایکشن پلان پر عمل کرنے کے لیے 15 ماہ کی مہلت دی گئی تھی۔

چند ماہ قبل مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے امریکا میں موجود پاکستانی میڈیا کے ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائن سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اس معاملے پر بنیادی طور پر تمام سرکاری ادارے ایک صفحے پر ہیں اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے لیے جو فیصلہ ضروری ہوا ہم کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں