اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کرنے میں اراکین سندھ اسمبلی سب سے آگے

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2019
چاروں صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے 71 اراکین نے اپنے ذاتی ہتھیار ظاہر کردیے —تصویر:شٹر اسٹاک
چاروں صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے 71 اراکین نے اپنے ذاتی ہتھیار ظاہر کردیے —تصویر:شٹر اسٹاک

اسلام آباد: اراکین اسمبلی کی جانب سے ظاہر کردہ اثاثوں کے بیانات پر اگر یقین کرلیا جائے تو سندھ اسمبلی کے اراکین کے پاس باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی ملکیت میں موجود ہتھیاروں سے تقریباً دوگنا ہتھیار ہیں۔

سال 2018 کے لیے اراکین اسمبلی کی جانب سے جمع کروائے گئے اثاثوں کی معلومات کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے 71 اراکین نے اپنے ذاتی ہتھیار ظاہر کیے، جس میں 47 اراکین کا تعلق سندھ اسمبلی جبکہ 24 کا تعلق دیگر تینوں اسمبلیوں سے ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان 24 اراکین میں سے پنجاب اسمبلی کے 10، بلوچستان اسمبلی کے 8، خیبرپختونخوا اسمبلی کے 6 ایسے اراکین شامل ہیں، جنہوں نے اپنے اثاثوں میں ہتھیاروں کی ملکیت ظاہر کی۔

مزید پڑھیں: اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں میں 'ممنوعہ ہتھیاروں' کی موجودگی کا انکشاف

حیرت انگیز طور پر حال ہی میں خیبرپختونخوا اسمبلی کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع کے اراکین میں سے کسی نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے اپنے ہتھیار ظاہر نہیں کیے۔

مذکورہ اعداد و شمار بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی عمومی ثقافت کے بالکل برعکس ہیں جس میں ہتھیاروں کا بڑا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے اراکین اسمبلی نے ہتھیاروں کی نہایت معمولی تعداد ظاہر کی ہے جبکہ پنجاب کے اراکین کے اثاثے بھی حقیقت کے برعکس ہیں۔

انہوں نے اس کی وجہ اس رجحان کو قرار دیا کہ جس میں اراکین اسمبلی سمیت زیادہ تر افراد اپنے نجی محافظوں کے نام پر اسلحہ لائسنس حاصل کرتے ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی ملکیت میں غیر لائسنس یافتہ ہتھیاروں کی موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق سندھ اسمبلی کے رکن پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نواب سردار خان چانڈیو کے پاس سب سے زیادہ 60 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار موجود ہیں، جس کے بعد سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن 25 لاکھ روپے کے ہتھیاروں کے مالک ہیں۔

سندھ اسمبلی کے دیگر اراکین جن کے ہتھیاروں کی مالیت 10 لاکھ روپے سے زائد ہے اس میں سابق وزیر داخلہ میر نادر علی مگسی (18 لاکھ روپے)، علی حسن (17 لاکھ روپے)، فریال تالپور (14 لاکھ 80 ہزار روپے) جبکہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی اور وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ کے پاس 15، 15 لاکھ روپے کے ہتھیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں ممنوعہ ہتھیاروں کا سیلاب

اسی طرح وزیر انسداد بدعنوانی سہیل انور سیال نے اپنے اثاثوں میں 8 لاکھ 46 ہزار روپے کے ہتھیار ظاہر کیے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حلیم عادل شیخ نے 9 لاکھ 32 ہزار روپے کے ہتھیار اور زرعی مشینری ظاہر کی۔

خیبرپختونخوا

خیبرپختونخوا اسمبلی میں لائق خان سب سے زیادہ 40 لاکھ روپے مالیت یا اس سے زائد کے ہتھیار ظاہر کرکے سر فہرست ہیں، جس کے بعد صوبائی وزیر اکبر ایوب خان کے پاس 3 ہتھیار ہیں، جس میں ایک رپیٹڑ رائفل، ایک 30 بور کا پستول اور 9 ایم ایم گلاک پستول شامل ہے۔

پی ٹی آئی کے ارشد ایوب خان کے پاس 3 رائفلز، 2 شاٹ گنز اور 4 پستولوں سمیت 9 ہتھیار موجود ہیں۔

جس کے بعد خیبرپختونخوا کے ڈپٹی اسپیکر محمود خان، امجد خان آفریدی اور تاج محمد وہ تین اراکین صوبائی اسمبلی ہیں جنہوں نے ہتھیاروں کی ملکیت ظاہر کی۔

بلوچستان

بلوچستان اسمبلی کے اراکین میں سے 8 اراکین نے ہتھیاروں کی ملکیت ظاہر کی، جس میں سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے پاس 13 کلاشنکوف، بلوچستان عوامی پارٹی کے میر ضیااللہ کے پاس 6 ہتھیار اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سید احسن شاہ کے پاس 5 کلاشنکوف ہیں جو انہیں بطور تحفہ ملیں۔

پنجاب

ملک کے سب سے بڑے صوبے کے اسمبلی کے صرف 10 اراکین کے پاس ہتھیار ہیں، جس میں پی ٹی آئی کے صمصام بخاری نے ہتھیاروں کی تعداد یا ساخت نہیں بتائی تاہم ان کے پاس موجود تمام اسلحہ تحفے یا وراثت میں ملا۔

اسی طرح سردار اویس خان لغاری کے پاس بھی اچھی تعداد میں وارثت میں ملنے والا آتشی اسلحہ موجود ہے جبکہ محمد ارشد جاوید کے پاس 5 ہتھیار ہیں تاہم ان کی نوعیت کی تفصیلات دستیاب نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں