بے ہوش لڑکی کے ’ریپ‘ پر اسپین کی عدالت کا انوکھا فیصلہ

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2019
عدالت نے ملزمان پر ’ریپ‘ کے بجائے معمولی جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے—فوٹو: شٹر اسٹاک
عدالت نے ملزمان پر ’ریپ‘ کے بجائے معمولی جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے—فوٹو: شٹر اسٹاک

یورپی ملک اسپین کی ایک عدالت کی جانب سے کم عمر بے ہوش لڑکی کا ’ریپ‘ کرنے والے 5 ملزمان پر ’ریپ‘ کے الزامات کے بجائے معمولی جنسی ہراسانی کے تحت فیصلہ سنائے جانے پر انسانی و خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اسپین کے شہر بارسلونا کی عدالت نے 2016 میں ایک پارٹی کے بعد 14 سالہ لڑکی کا ’ریپ‘ کرنے والے 5 ملزمان کو ’ریپ‘ کی سزاؤں کے بجائے معمولی جنسی ہراسانی کے قوانین کے تحت قدرے کم سزائیں سنائیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عدالت نے اسپین، ارجنٹینا اور کیوبا سے تعلق رکھنے والے 5 مرد ملزمان کو ’ریپ‘ کا مرتکب قرار دینے کے بجائے انہیں معمولی جنسی ہراسانی کا مرتکب قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق عدالت کی جانب سے ملزمان کو معمولی جنسی ہراسانی کے الزامات کے تحت 10 سے 12 سال کی سزا سنائی گئی ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ملزمان کو کتنے سال قید کی سزا ہوگی۔

مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران بھی اسپین بھر میں مظاہرے کیے جاتے رہے—فوٹو: اے ایف پی
مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران بھی اسپین بھر میں مظاہرے کیے جاتے رہے—فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ چونکہ ملزمان نے 14 سالہ لڑکی کو ’بے ہوشی‘ کے وقت ’ریپ‘ کا نشانہ بنایا اور متاثرہ لڑکی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، اس لیے ملزمان پر ’ریپ‘ کے الزامات نہیں لگائے جا سکتے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اسپین کے قوانین کے تحت اگر متاثرہ شخص اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے متعلق ہر بات جانتا ہو، وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو روکنے کی کوشش کرنے کے دوران بے بس ہوجائے اور ملزمان ان کے ساتھ زیادتی کریں اور اسے اندازہ ہو کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے تبھی کوئی جرم ’ریپ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت کے مطابق چونکہ لڑکی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے وقت بے ہوش تھی اور اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کب، کیا، کیسے اور کیوں ہوا، اس لیے ملزمان پر ’ریپ‘ کے الزامات نہیں لگائے جا سکتے۔

ساتھ ہی عدالت نے پانچوں مرد ملزمان کو معمولی جنسی ہراسانی کے الزامات کے تحت سزا سنائی جس پر نہ صرف بارسلونا کے میئر بلکہ انسانی و خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے بھی سخت مایوسی کا اظہار کیا۔

متنازع ریپ قوانین پر بھی خواتین احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں—فوٹو: رائٹرز
متنازع ریپ قوانین پر بھی خواتین احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں—فوٹو: رائٹرز

عدالت کی جانب سے دیے گئے متنازع فیصلے کے بعد کئی خواتین احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں جب کہ سوشل میڈیا پر بھی ’یہ معمولی جنسی ہراسانی نہیں بلکہ ریپ ہے‘ جیسے ہیش ٹیگ کے ساتھ احتجاج کیا گیا۔

واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ 2016 میں اس وقت پیش آیا تھا جب پانچوں ملزمان اور متاثرہ لڑکی بارسلونا کے قریبی علاقے میں پارٹی میں موجود تھے۔

سزا پانے والے پانچوں ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے پارٹی میں شراب نوشی پینے کی وجہ سے بے ہوش ہوجانے والی لڑکی کے ساتھ باری باری ’ریپ‘ کیا، تاہم بعد ازاں تمام ملزمان نے ’ریپ‘ کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

بعد ازاں تفتیش میں لڑکی کے انڈرویئر(زیرجامہ) کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج میں پانچوں میں سے ایک ملزم کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے، جس سے تفتیش کے بعد پولیس نے پانچوں ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

مذکورہ کیس کئی ماہ تک عدالتوں میں زیر سماعت رہا اور اس دوران اسپین میں خواتین و انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے ملک میں رائج ’ریپ‘ اور ’جنسی ہراسانی‘ کے قوانین کو تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

اس کیس سے قبل 2016 میں بھی اسپین کی سپریم کورٹ نے 18 سالہ لڑکی کو ’بے ہوشی‘ کی حالت میں ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے والے 5 ملزمان کو ’ریپ‘ الزامات سے بری کیا تھا۔

انوکھے فیصلے پر اسپین بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے—فوٹو: اے ایف پی
انوکھے فیصلے پر اسپین بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے—فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں