تھائی لینڈ:دہشت گردوں کی فائرنگ سے 15 سیکیورٹی اہلکار ہلاک

06 نومبر 2019
حملہ آوروں نے رضاکار فورس کو نشانہ بنایا—فوٹو:اے ایف پی
حملہ آوروں نے رضاکار فورس کو نشانہ بنایا—فوٹو:اے ایف پی

تھائی لینڈ کے دہشت گردی سے متاثرہ جنوبی صوبے میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 15 سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے جبکہ اس واقعے کو 15 برسوں میں بدترین واقعہ قرار دیا گیا ہے۔

تھائی لینڈ کی فوج کے ترجمان کرنل کیاٹیساک نیونگ کا کہنا تھا کہ یالا صوبے میں واقع دو چیک پوسٹوں میں خون آلودہ کپڑے بھی ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران حملہ آور بھی زخمی ہوگئے ہیں۔

تھائی لینڈ میں 2004 سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے—فوٹو:رائٹرز
تھائی لینڈ میں 2004 سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے—فوٹو:رائٹرز

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افسران میں 4 خواتین تھیں اور ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے۔

صوبائی پولیس سربراہ کرنل تھاویساک تھونسونگسی کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد یالا جانے والی شاہراہ کو گاڑیوں کے لیے بند کردیا گیا کیونکہ بجلی کو منقطع کرنے کے لیے کھمبے کے قریب باردوی مواد نصب کیا گیا تھا اور اسکول میں ٹائرز بھی نذر آتش کردیے گئے تھے۔

تھائی لینڈ کے وزیراعظم پرایوتھ چان اوچا کا کہنا تھا کہ اس حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد فوجی اور پولیس اہلکاروں پر حملوں کے بجائے اپنی توجہ سیکیورٹی رضاکاروں پر مرکوز کررہے ہیں کیونکہ وہ ان کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رضاکاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:تھائی لینڈ میں کشیدگی کے دوران فائرنگ سے دو راہب ہلاک

خیال رہے کہ تھائی لینڈ کے جنوبی علاقوں میں رضاکار فورسز کو گاؤں کی سیکیورٹی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جن کی تربیت فوج کرتی ہے لیکن تنخواہ نہیں دی جاتی جبکہ انہیں چھوٹے پیمانے کا اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے جس کے باعث وہ دہشت گردوں کا بہتر انداز میں مقابلہ نہیں کرپاتے۔

تھائی لینڈ کے مسلم اکثریتی جنوبی صوبوں پتانی، ناراتھیواٹ اور یالا میں 2004 میں علیحدگی پسندوں کی تحریک شروع ہوئی تھی جس کے بعد اب تک7 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسلمان شہریوں کو شکایات ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے جبکہ ان صوبوں میں کئی دہائیوں سے مختلف اوقات میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوجاتی ہے اور اس کو کچلنے کے لیے شدید کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:تھائی لینڈ میں دو فوجی ہلاک

علیحدگی پسندوں کی جانب سے مسلمانوں سمیت پولیس، اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور بدھ بکشووں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔

دفاعی معاملات پر نظر رکھنے والے ڈون پاٹھن کا کہنا تھا کہ دہشت گرد عام طور پر گاؤں کے دفاعی رضاکاروں کو نشانہ نہیں بناتے لیکن اگر وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں پھر صورت حال تبدیل ہوجاتی ہے۔

یونیورسٹی کے تھنک ٹینک کے رکن رومادون پنجور کا کہنا تھا کہ 2004 میں شروع ہونے والی تحریک میں متعدد مرتبہ گاؤں کے رضاکاروں پر حملے کیے گئے ہیں لیکن گزشتہ ایک یا دو برسوں میں اس میں اضافہ ہوا کیونکہ رضاکاروں کی تعداد کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا خیال ہے کہ حملوں اور ہلاکتوں میں آنے والی کمی پر وہ دفاعی معاملات مقامی باشندوں کو منتقل کرسکتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں مقامی رضاکاروں پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں