پشاور ہائیکورٹ: پرنسپل ایڈورڈز کالج کی نظرِ ثانی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2019
وکیل کا کہنا تھا کہ ایڈورڈ کالج ایک عالمی معاملہ بن چکا ہے—فائل فوٹو: فیس بک
وکیل کا کہنا تھا کہ ایڈورڈ کالج ایک عالمی معاملہ بن چکا ہے—فائل فوٹو: فیس بک

پشاور ہائیکورٹ نے تاریخی درسگاہ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل کی جانب سے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست مسترد کردی جس میں پشاور کے ایڈورڈز کالج کو قومی تحویل میں موجود ادارہ قرار دیتے ہوئے حکومت کے تشکیل کردہ بورڈ آف گورنر کے تحت چلائے جانے کا حکم دے دیا تھا۔

جسٹس قیصر راشد خان اور جسٹس محمد ناصر محفوظ پر مشتمل بینچ نے پرنسپل بریگیڈیئر (ر) نیئر فردوس کی دائر کردہ درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یکم اکتوبر کو ہائی کورٹ نے پشاور کے بشپ ہمفرے سرفراز پیٹر کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی تھی جس میں ایڈورڈز کالج کو 2016 کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں نجی تعلیمی ادارہ قرار دینے اور حکومت کو اس کے معاملات میں مداخلت سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر پشاور کے ایڈورڈ کالج کے معاملے کو مذہبی رنگ دینے کی مہم

اس کے ساتھ بینچ نے سینئر فیکلٹی اراکین کی جانب سے بھی دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کی تھی جس میں انہوں نے بشپ کے موقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام نجی اسکول اور کالجز 1972 میں حکومت نے قومیا لیے تھے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ کالج کو ایک خودمختار ادارہ قرار دے دیا جائے جس کا اتنظام و انصرام 1976 کے نوٹیفکیشن کے مطابق بورڈ آف گورنر کے پاس ہو۔

واضح رہے کہ بورڈ آف گورنر کی سربراہی گورنر خیبرپختونخوا کے پاس تھی تاہم رواں برس مارچ میں چرچ کمیٹی نے بورڈ آف گورنر ختم کر کے بشپ کی چیئرمین شپ قائم کردی تھی۔

مزید پڑھیں: حکومت کا قومی تعلیمی پالیسی فریم ورک 2018 کا اعلان

علاوہ ازیں عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے دائر پٹیشن کی اجازت دی تھی جس میں انہوں نے 2016 میں دیے گئے فیصلے کو دہرانے کی استدعا کی تھی، مذکورہ فیصلے میں کالج کو ایک نجی ادارہ تسلیم کیا گیا تھا۔

سماعت میں پرنسپل نیئر فردوس کے وکیل کا کہنا تھا کہ ابتدائی فیصلے میں ہائی کورٹ نے کئی اہم پہلو نظر انداز کردیے جبکہ ان کے موکل کا نقطہ نظر جاننے کے لیے کوئی نوٹس بھی جاری نہیں دیا گیا۔

انہوں نے مذکورہ پٹیشن لارجر بینچ تشکیل دینے کے لیے چیف جسٹس کو بھجوانے کی بھی استدعا کی کیوں کہ لارجر بینچ نے 2016 میں کالج کو نجی ادارہ قرار دیا تھا جبکہ حالیہ حکم میں اسے قومی ادارہ کہا گیا۔

یہ بھی دیکھیں: اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کا معذور طالب علم گریجویٹ بن گیا

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ایڈورڈ کالج ایک عالمی معاملہ بن چکا ہے اور اس پر یورپی پارلیمینٹیرینز بھی بات کرچکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پرنسپل نیئر فردوس کالج کا میعار بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرچکے ہیں جنہیں کچھ عناصر کی جانب سے دھمکیوں کا بھی سامنا ہے۔

جس پر جسٹس قیصر راشد نے وکیل سے کہا کہ معاملے کو مذہبی رنگ نہ دیں اور صرف تکنیکی اور قانونی پہلو بیان کریں۔

عدالت نے کہا کہ اگر درخواست گزار کے پاس نظِر ثانی کی اپیل کا کوئی قانونی پہلو ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں