فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس: 'حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے'

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2019
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فل الحال اہلخانہ سے نہیں ملواسکتے —فائل فوٹو: ڈان نیوز
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فل الحال اہلخانہ سے نہیں ملواسکتے —فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ میں فاٹا، پاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اقرار کیا کہ صوبائی حکومت نے حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں بنائے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ سے ‏متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حراستی کیمپ کے قواعد میں زیر حراست افراد سے اہلخانہ کی ملاقات کا بھی ذکر ہے پھر آپ نے زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیر حراست افراد کی تفصیلات عام نہیں کرسکتے اور زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہلخانہ کو لکھ سکتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایسے قوانین کو تو دیکھ کر لگتا ہے حراست قانونی ہے، معلوم نہیں عملی طور پر ان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ وہ حراستی مراکز کے کام کے طریقہ کار سے متعلق عدالت کو ایک وڈیو بھی دیکھائیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لوگ میڈیا میں شکایت کیوں کرتے ہیں کہ انہیں ان کے پیاروں کا علم نہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا میں آنے والی تمام شکایات غلط نہیں کیونکہ بعض لاپتہ افراد کا اداروں کو بھی علم نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فل الحال اہلخانہ سے نہیں ملواسکتے۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاپتہ افراد کمیشن کے پاس عدالت کو فراہم کردہ فہرست ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معلومات حاصل کر کے ہی عدالت کو آ گاہ کروں گا۔

علاوہ ازین جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ 9/11 کے بعد غیر ریاستی عناصر کا لفظ سامنے آیا اور غیر ریاستی عناصر کو کوئی ملک بھی تحفظ نہیں دیتا اس لیے کیا اداروں کے پاس زیر حراست افراد کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اداروں کے پاس تمام تفصیلات اور شواہد موجود ہیں، ایک حراستی مرکز میں پہلے مہینے 78 افراد کو رکھا گیا اور پھر 2 سال بعد تمام افراد کو بحالی کے بعد رہا کیا گیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت پر سوال کیا؟ اور ریمارکس دیے کہ یہ جائزہ نہیں لینا کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں کیونکہ کاغذوں میں تو آپ نے بہت اچھی چیزیں دکھائی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عملی طور پر کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا الگ چیز ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہا کہ 25 ویں ترمیم کے بعد حالات بہت بہتر ہو گئے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد راتوں رات حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے، فوج ان افراد سے لڑ رہی جو پاکستان میں دہشت گردی کی نیت سے داخل ہوئے۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ کیا آپ 25 ویں ترمیم کو چیلنج کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ حراستی مراکز کے لیے بنائے گئے رولز جیل مینول میں پہلے ہی موجود ہیں جبکہ فاٹا میں پہلے بلا واسطہ نمائندگی تھی اب برائے راست نمائندگی ہے کیونکہ اب فاٹا کی تمام مشینری صوبوں کے ماتحت آچکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے فاٹا اور پاٹا میں پہلے سے رائج قوانین کو جاری رکھا گیا ہے اور 25 ویں ترمیم کے بعد قوانین جاری رکھنے کا ایکٹ لایا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں