چیئرمین پیمرا نے ' گمراہ کن ایڈوائزری' پر عدالت سے معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2019
29 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نےچیئرمین پیمرا کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان
29 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نےچیئرمین پیمرا کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین محمد سلیم بیگ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر مشروط معافی مانگی اور دیگر ٹاک شوز میں ٹی وی اینکرز کی شرکت پر پابندی سے متعلق ' گمراہ کن ایڈوائزری' جاری کرنے پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔

29 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نےچیئرمین پیمرا کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جنہوں نے اینکر پرسنز کو مختلف ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگار کی حیثیت سے شرکت کرنے سے روک دیا تھا اور اس حوالے سے عدالتی حکم کا حوالہ دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے کوئی احکامات جاری نہیں کیے تھے لہذا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پیمرا کے ہدایت نامے کو توہین عدالت قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے اینکرز کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر پیمرا کے عہدیداران کی سرزنش کی تھی۔

جس پر پیمرا نے نجی میڈیا اداروں کو ایک ہدایت جاری کی تھی جس میں عدالتی حکم کے برعکس پیمرا نے اینکر پرسنز کو مختلف ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگار کی حیثیت سے شرکت کرنے سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: اینکرز کے تجزیہ پیش کرنے پر پابندی کا معاملہ، چیئرمین پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس

تحریری معافی نامے میں سلیم بیگ نے لکھا ' وہ پیمرا سے جاری کسی ہدایت میں معزز عدالت کے نام کا غلط استعمال اور اسے بدنام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لہذا وہ غیر مشروط معافی طلب کرتے ہیں اور خود کو اس معزز عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ؛' اگر یہ معزز عدالت ایسا سمجھتی ہے کہ فریق کے کسی عمل سے تکلیف پہنچی ہے تو اس پر انتہائی افسوس ہے اور اس پر جوابی فریق (چیئرمین پیمرا) غیر مشروط معافی مانگتے ہیں'۔

تفصیلات بیان کرتے ہوئے چیئرمین پیمرا نے کہا کہ 26 اکتوبر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا کہ پیمرا توہین آمیز مواد پر نجی ٹی وی چینلز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہا اور اس سلسلے میں انہیں عدالت میں بھی طلب کیا تھا۔

بعدازاں پیمرا نے 27 اکتوبر کو ہدایت نامہ جاری کردیا جس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا چیئرمین پیمرا کا ارادہ کوئی ایسا تاثر دینے کا نہیں تھا کہ یہ پابندی عدالت کی جانب سے عائد کی گئی۔

چیئرمین پیمرا کے جواب میں کہا گیا کہ 28 اکتوبر کو پیمرا نے اپنی ایڈوائزری کی وضاحت کردی تھی اور واضح کیا تھا کہ ' ٹاک شوز میں صحافیوں کی شرکت پر پابندی سے متعلق کوئی ایڈوائزری نہیں'۔

علاوہ ازیں اینکر پرسنز کی کسی تعداد پر اپنے چینلز پر کسی خصوصی تازہ ترین مسئلے پر طویل دورانیے کے گروپ میراتھن ٹرانسمیشن میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں جبکہ جہاں ضروری یا ممکن ہو متعلقہ مہمانوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

سلیم بیگ کے جواب کے مطابق پیمرا نے پیمرا ٹیلی ویژن براڈ کاسٹ آپریشن ریگولیشنز 2012 کے سیکشن (18) جی کے تحت ہدایت جاری کی تھی جس کے تحت پیمرا کو لائسنس یافتہ چینل کو ہدایت جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے اور لائسنس یافتہ چینل کو اتھارٹی سے جاری ہدایات پر عمل کرنا لازم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے اینکرز کو پروگرامز میں تجزیہ پیش کرنے سے روک دیا

اس میں مزید کہا گیا کہ ' جوابی فریق( چیئرمین پیمرا) کا ایسا کوئی تاثر دینے کا ارادہ نہیں تھا کہ پروگراموں کے شرکا سے متعلق کوئی پابندی معزز عدالت کی جانب سے نافذ کی گئی اور جیسا بتایا گیا کہ اس کی وضاحت بھی کردی گئی تھی'۔

تحریری معافی نامے میں کہا گیا کہ ' اگر معزز عدالت کو اس تاثر پر کوئی تکلیف پہنچی ہے تو جوابی فریق کو اس پر پچھتاوا ہے'۔

چیئرمین پیمرا نے عدالت سے درخواست کی کہ غیر مشروط معافی کو قبول کرتے ہوئے عدالت، توہین عدالت آرڈیننس کے تحت انہیں جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی واپس لے سکتی ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پیر (18 نومبر) کو کل اس پر سماعت کریں گے۔

علاوہ ازیں عدالت نے بول ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو افسر اور اینکر پرسن سمیع ابراہیم کو توہین آمیز پروگرام نشر کرنے پر طلب کیا تھا عدالت کی جانب سے 18 نومبر ہی کو اس پر کارروائی شروع کرے گی۔


یہ خبر 17 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں