'ایف اے ٹی ایف کی 5 شرائط پر مکمل عملدرآمد کرلیا، اب مضبوط کیس پیش کریں گے'

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2019
ڈی جی ایف ایم یو کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان دیا تھا 
— فوٹو: ایف سی ڈاٹ کے آر
ڈی جی ایف ایم یو کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان دیا تھا — فوٹو: ایف سی ڈاٹ کے آر

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) نے کہا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی 5 شرائط پر مکمل عملدرآمد کرلیا، اب مضبوط کیس پیش کریں گے۔

فاروق نائیک کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان پر بریفنگ دی۔

ڈی جی ایف ایم یو منصور صدیقی نے بریفنگ میں کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی 5 شرائط پر مکمل درآمد کرلیا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں مضبوط کیس پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان دیا تھا جو انٹرنیشنل کو آپریشن ریویو گروپ (آئی سی آر جی)کے تحت دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا 'دہشتگردی سے متعلق سفر' کی مالی معاونت کو جرم قرار دینے پر زور

ڈی جی ایف ایم یو نے کہا کہ پاکستان نے اکتوبر 2019 میں ایکشن پلان مکمل کرنا تھا اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے رسک پروفائیلنگ کرنا تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس اکتوبر تک 17 سفارشات پر جزوی عمل درآمد کرلیا گیا اور اس دوران ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے تحت 41 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

منصور صدیقی نے کہا کہ اگست 2019 میں 73 کروڑ 70 لاکھ روپے جرمانے عائد کیے گئے اور 40 غیر منافع بخش اداروں کو دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق خطرناک قرار دیا گیا۔

ڈی جی ایف ایم یو نے کہا کہ ایکشن پلان 8 کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے اردگرد گھوم رہا ہے اس حوالے سے نیکٹا کے کردار کو بڑھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں 64 ہزار فلاحی تنظیمیں رجسٹرڈ تھیں جن میں سے 30 ہزار غیر فعال فلاحی تنظیموں کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی۔

ڈی جی ایف ایم یو نے کہا کہ 140 غیر سرکاری تنظیموں سے مشکوک ٹرانزیکشن کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

منصور صدیقی نے کہا کہ کالعدم تنظیمیں اب قربانی کی کھالیں بھی جمع نہیں کرسکتیں، ملک میں ایسا نظام بنایا ہے کہ غیر رجسٹرڈ فلاحی تنظیمیں کھالیں جمع نہ کرسکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف اب پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ آئندہ برس فروری کے وسط میں لے گا، اس حوالے سے نیکٹا کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور ادارہ ایف اے ٹی ایف کے اہداف کے حصول میں فعال ہے۔

ٹیکس وصولیوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا، چیئرمین ایف بی آر

قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی نے بھی کمیٹی کو بریفنگ دی۔

شبر زیدی نے بتایا کہ رواں مالی سال کے 4 ماہ میں ٹیکس وصولیوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور جولائی تا اکتوبر ایک ہزار 281 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال 166 ارب روپے رہا۔

چئیرمین ایف بی آر نے کہا کہ جولائی تا اکتوبر درآمدات میں کمی کے باعث 224 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا ہوا جبکہ گزشتہ برس جولائی تا اکتوبر کے دوران ایک ہزار 101 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین کی ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے تکنیکی معاونت کی پیشکش

انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں 80 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس سال 2018 میں فائلرز کی تعداد 26 لاکھ 81 ہزار تک پہنچ گئی۔

شبر زیدی نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2019 میں ایک لاکھ 24 ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا جبکہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018 میں 80 ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا تھا۔

تسلیم کرتے ہیں اسمگلنگ روک نہیں پارہے، ممبر کسٹمز

اجلاس میں ممبر کسٹمز جواد آغا نے کمیٹی کو انسداد اسمگلنگ اقدامات پر بریفنگ دی انہوں نے کہا کہ رواں برس میں اب تک 2 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کی 637 ایل ای ڈی ٹی ویز کو ضبط کیا گیا جبکہ گزشتہ برس میں 1550 ایل ای ڈی ٹی ویز کو ضبط کیا گیا تھا۔

ممبر کسٹمز نے کہا کہ رواں مالی سال کے چار ماہ میں 11 ارب روپے مالیت کی اشیاء کو ضبط کیا گیا جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 6 ارب 30 کروڑ روپے مالیت کی اشیاء ضبط کی گئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سالانہ 20 سے 25 ارب روپے مالیت کی اسمگل شدہ اشیا پکڑی جاتی ہیں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسمگلنگ مکمل طور پر نہیں روک پارہے۔

اس دوران چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ایف بی آر اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہوگیا، ساتھ ہی کمیٹی کے رکن میاں عتیق نے کہا کہ باڑہ مارکیٹ میں اسمگل شدہ مال بکتا ہے اور درآمدی مال مقامی مال سے سستا بکتا ہے۔

جس پر جواد آغا نے کہا کہ وزیر اعظم نے اینٹی اسمگلنگ اسٹریٹجی کمیٹی قائم کی ہے جس کے سربراہ وزیر داخلہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ڈرون اینڈ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی متعارف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ممبر کسٹمز نے کہا کہ سرحدوں پر اسکینرز لگائے جارہے ہیں، کسٹمز اہلکار مخصوص روٹس پر تعینات کیے جاتے ہیں اور 3 ماہ سے اسمگلنگ کے خلاف بھر پور کارروائی کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا جائے، چین

ممبر کسٹمز نے کہا کہ حکومت نے اس سال 1650 ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی زیرو کردی ہے جس کا مقصد مقامی انڈسٹری کو فروغ دینا ہے۔

سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ نے کہا کہ 2009 سے کسٹمز میں بھرتیاں نہیں ہوئیں جبکہ موجودہ حکومت نے کسٹمز میں بھرتیوں کی اجازت دے دی ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں اسمگلنگ میں کئی گنا اضافہ ہوا، پورے ملک میں اسمگل شدہ اشیاء فروخت ہورہی ہیں۔

اجلاس کے دوران ممبر کسٹمز نے کہا کہ کسٹمز کے اختیارات کو دو سال تک کسی اور ادارے کو منتقل نہیں کیا جائے گا جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جن افسران کو اختیارات منتقل کیے گئے انہوں نے لوگوں کو تنگ کیا۔

اس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سفارش کی ‏کہ کسٹمز کے اختیارات کسی ادارے کو منتقل نہ کیے جائیں۔

بینکوں کے غیر فعال قرضوں میں 124 ارب کا اضافہ ہوا، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک

اجلاس کے دوران ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ستمبر 2019 تک بینکوں کے غیر فعال قرضے 758 ارب روپے ہوچکے ہیں، ایک سال میں غیر فعال قرضوں میں 124 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انرجی سیکٹر کے قرضے 36 ارب روپے سے بڑھ کر 86 ارب روپے ہوگئے، شوگر انڈسٹری کے قرضے 16 ارب روپے سے بڑھ کر 44 ارب روپے ہوگئے۔

ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے قرضے 186 ارب روپے سے کم ہوکر 182 ارب روپے ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شوگر اور انرجی سیکٹر کے غیر فعال قرضوں بڑھ رہے ہیں، قرض ڈیفالٹرز کے 49 ہزار کیسز بینکنگ کورٹس میں زیر التوا ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں