میڈیا سے نشر ہونے والے مواد کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق تجاویز طلب

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2019
عدالت نے مجرمانہ توہین کے قانون کے تناظر میں پریس / میڈیا کی آزادی سے متعلق استفسار کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے مجرمانہ توہین کے قانون کے تناظر میں پریس / میڈیا کی آزادی سے متعلق استفسار کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹی وی پروگرامز کے مواد کو ریگولیٹ کرنے اور قابل اعتراض مواد نشر کرنے سے گریز کرنے کے لیے میڈیا سے 8 سوالات پر تجاویز طلب کرلیں۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی رہائی کو ڈیل کا حصہ قرار دینے سے متعلق نجی چینل کو جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ سوالات اٹھائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'پروگرامز کا مواد، بادالنظر میں فیصلے سے قبل شفاف ٹرائل کے حق پر اثر انداز ہوسکتا ہے'۔

مزید پڑھیں: اینکرز کے تجزیہ پیش کرنے پر پابندی کا معاملہ، چیئرمین پیمرا کو توہین عدالت کا نوٹس

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے ٹی وی پروگراموں میں کیے گئے تبصروں اور مشاہدوں سے متعلق مختلف شکایات موصول ہونے پر کارروائی کی تھی، خاص طور پر وہ تبصرے جو عدالتی فیصلوں اور زیرِ ٹرائل مقدمات پر کیے گئے تھے۔

عدالت نے مجرمانہ توہین کے قانون کے تناظر میں پریس/میڈیا کی آزادی سے متعلق استفسار بھی کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آزادی اظہار رائے اور نظام عدل کی سالمیت کے درمیان توازن رکھنے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے رپورٹر، پبلشر، براڈکاسٹر اور ایڈیٹوریل منیجمنٹ کی زیر التوا کارروائیوں سے متعلق ذمہ داریوں اور فرائض سے متعلق استفسار کیا تاکہ زیر التوا کارروائیوں پر فیصلے سے قبل ذاتی فیصلے نہ سنانے کو یقینی بنایا جاسکے۔

عدالت عالیہ نے سوال کیا کہ ٹرائل کے دوران پبلسٹی یا سماعت یا ٹرائل سے قبل ہی اس کے فیصلے پر رائے دینا توہین عدالت آرڈیننس کے تحت توہین کے زمرے میں آتا ہے؟

علاوہ ازیں عدالت نے استفسار کیا کہ ریگولیٹری فریم ورک قانونی کارروائیوں کی حرمت اور سالمیت کا تحفظ برقرار رکھنے کے لیے موثر ہیں اور ان پروگرامز کے مواد جن میں ان کارروائیوں سے متعلق تبصرہ کیا جاتا ہے وہ توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت توہین کے جرم کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے اینکرز کو پروگرامز میں تجزیہ پیش کرنے سے روک دیا

توہین عدالت کی مذکورہ کارروائیوں اور آئین کے آرٹیکلز 19، 19 اے اور 10-اے میں دیے گئے دیگر حقوق جیسا کہ آزادی اظہار رائے، معلومات کا حق اور شفاف ٹرائل کی ضمانت کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت پہلے ہی آئی اے رحمٰن، محمد ضیا الدین، شکیل مسعود اور افضل بٹ کو عدالتی معاون مقرر کر چکی ہے۔

علاوہ ازیں اینکر پرسن محمد مالک، حامد میر، عامر متین اور کاشف عباسی سے ان کارروائیوں میں اٹھائے جانے سوالات پر عدالت کی معاونت کرنے پر زود دیا گیا ہے۔

یہی نہیں بلکہ عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے عہدیداران، اسد ملک، فیاض محمود، عامر سعید عباسی، اویس یوسفزئی اور ثاقب بشیر سے بھی عدالت میں زیر سماعت معاملات پر معاون کرنے کا کہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ' جمہوری نظام کو مضبوط بنانے اور قانون کی حکمرانی کے لیے آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا تحفظ بہت اہمیت کا حامل ہے'۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ' نظام عدل کی سالمیت کے تحفظ اور عدلیہ میں لوگوں کا اعتماد توہین کے قانون کا مقصد اور بنیاد ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ' زیر التوا کارروائیوں سے متعلق قبل از وقت فیصلہ دینا یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کا تعلق شفافیت، غیر جانبداری کے تحفظ اور عدلیہ کی فیصلہ سازی کے عمل سے ہے، ٹرائل سے قبل کارروائیوں کی تشہیر شفاف ٹرائل کے حق کو متاثر کرسکتی ہے'۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت کو ملتوی کردیا گیا اور اب عدالت 18 دسمبر کو معاملے پر سماعت کرے گی۔


یہ خبر 19 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں