امریکا نے ایرانی وزیر اطلاعات پر پابندی عائد کردی

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2019
انٹرنیٹ کی بندش سے ایران میں ہونے والے احتجاج کی شدت سے متعلق مصدقہ اطلاعات کا حصول مشکل ہوگیا تھا— فوٹو: اے پی
انٹرنیٹ کی بندش سے ایران میں ہونے والے احتجاج کی شدت سے متعلق مصدقہ اطلاعات کا حصول مشکل ہوگیا تھا— فوٹو: اے پی

امریکا نے ایران میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف 5 روز تک جاری رہنے والے احتجاج کے دوران انٹرنیٹ بند کرنے پر ایران کے وزیر اطلاعات پر پابندیاں عائد کردیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے ' رائٹرز ' کی رپورٹ کے مطابق ایران میں احتجاج کے دوران انٹرنیٹ کی بندش سے مظاہرین کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کرکے حمایت حاصل کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

علاوہ ازیں انٹرنیٹ کی بندش سے ایران میں ہونے والے احتجاج کی شدت سے متعلق مصدقہ اطلاعات کا حصول بھی مشکل ہوگیا تھا۔

تاہم ایران نے 2 روز قبل کہا تھا کہ انٹرنیٹ بحال کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایران: 5 روز سے جاری مظاہروں میں 106 افراد ہلاک ہوئے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

دوسری جانب امریکا کے محکمہ خزانہ کے مطابق ایرانی وزیر محمد جواد آذری جہرمی نے عہدے پر رہتے ہوئے ایران کی 'جارحانہ انٹرنیٹ سینسرشپ کی پالیسی کو بڑھادیا ہے'۔

امریکی محکمے نے ایرانی وزیر کو سابق انٹیلی جنس عہدیدار قرار دیا جو اپوزیشن کارکنوں کے خلاف نگرانی میں ملوث رہے۔

سیکریٹری خزانہ اسٹیون منوچن نے ایک بیان میں کہا کہ 'ایران کے رہنما جانتے ہیں کہ آزاد انٹرنیٹ سے ان کی قانونی حیثیت بے نقاب ہوجائے گی اس لیے وہ حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی بند کردیتے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم ایران کے وزیر برائے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی پر انٹرنیٹ رسائی بند کرنے، میسیجنگ ایپلی کیشن جس کی مدد سے لاکھوں ایرانی ایک دوسرے سے اور بیرونی دنیا سے رابطے میں ہیں، اس کی بندش پر پابندی عائد کر رہے ہیں'۔

امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی وزیر محمد جواد آذری جہرمی پر عائد پابندیوں میں امریکی حدود میں جائیداد منجمد کرنا اور امریکی افراد سے کسی بھی قسم کے معاملات سے روکنا شامل ہے۔

مذکورہ اعلان کے بعد ایرانی وزیر محمد جواد آذری جہرمی نے کہا کہ 'میں پہلا شخص نہیں جس پر پابندی لگائی گئی ہے، مجھ سے پہلے ایران کی آئی سی ٹی اسٹارٹ اپس، ڈویلپرز، کینسر کے مریضوں اور وہاں موجود ایپی ڈرمولائسز بولیوسا کا شکار بچوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی تھیں'۔

انہوں نے کہا کہ میں انٹرنیٹ تک رسائی کی وکالت جاری رکھوں گا اور امریکا کو ایران کی ترقی روکنے نہیں دوں گا۔

واضح رہے کہ ایران کی حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے غیر متوقع فیصلے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے۔

ایران کی حکومت نے کہا تھا کہ ابتدائی 60 لیٹر پر 50 فیصد اضافہ ہوگا اور ہر ماہ اس سے تجاوز پر 300 فیصد اضافہ ہوگا۔

قیمتوں میں اضافے کے بعد سیرجان کے علاوہ دیگر شہروں ابادان، اہواز، بندر عباس، برجند، گجساران، خرمشہر، مشہر، مشہد اور شیراز میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : ایران: تیل کی قیمت بڑھانے پر احتجاج کے دوران پولیس اہلکار،شہری ہلاک

ایران میں احتجاج سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ 'مصدقہ اطلاعات کے مطابق 21 شہروں میں کم از کم 106 مظاہرین مارے جاچکے ہیں'۔

تنظیم نے مزید کہا تھا کہ 'اموات کی اصل تعداد میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کچھ رپورٹس میں ہلاکتوں کی تعداد 200 بتائی گئی ہے'۔

دوسری جانب ایران نے سرکاری طور پر کم از کم 5 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی، جن میں 3 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں مبینہ طور پر مظاہرین نے چاقو کے وار سے قتل کردیا تھا۔

خیال رہے کہ ایران معاشی حوالے سے امریکی پابندیوں کے بعد شدید مشکلات کا شکار ہے اور حکومت نے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں