آمدن سے زائد اثاثے: خورشید شاہ کے عدالتی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2019
خورشید شاہ کو گزشتہ سماعت پر عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا —تصویر: ڈان نیوز
خورشید شاہ کو گزشتہ سماعت پر عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا —تصویر: ڈان نیوز

سکھر کی احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مرکزی رہنما خورشید احمد شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14روز کی توسیع کردی۔

یاد رہے کہ خورشید شاہ کو گزشتہ سماعت پر عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا تاہم ان کی طبیعت خراب ہونے کی ہونے کی وجہ سے انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

رہنما پیپلز پارٹی دل کی تکلیف کے باعث قومی ادارہ برائے امراض قلب میں زیر علاج ہیں جہاں وزارت داخلہ سندھ نے ہسپتال کے ایمرجنسی روم کو سب جیل قرار دے دیا تھا، تاہم آج ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں بذریعہ ایمبولینس احتساب عدالت لایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: خورشید شاہ عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

سماعت کے موقع پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالت کے جج سے خورشید شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید 15روز کی توسیع کرنے کی استدعا کی۔

دوران سماعت خورشید شاہ کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ خورشید شاہ کا موبائل نیب کی تحویل میں ہے وہ دلوایا جائے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ کا موبائل فرانزک کے لیے بھیجا گیا تھا فرانزک مکمل ہونے پر انہیں ان کا موبائل واپس کردیا جائے گا۔

عدالت میں سماعت کے موقع پر جج نے خورشید شاہ سے مکالمہ بھی کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے، آپ کو کوئی پریشانی یا تکلیف تو نہیں ہے جس پر خورشید شاہ نے جواب دیا کہ میری طبیعت بہتر ہے اور الحمداللہ فی الحال کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: پی پی رہنما خورشید شاہ مزید 15 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے

علاوہ ازیں عدالت نے نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے خورشید شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کردی جبکہ نیب کو انہیں دوبارہ 7 دسمبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

قبل ازیں خورشید شاہ کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نئیر حسنین بخاری، مرکزی سیکرٹری اطلاعات سیدہ نفیسہ شاہ، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادر شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد عدالت کے باہر اور اندر موجود تھی۔

ان کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سکھر انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی کے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

90 روز بعد کھل کر بات کروں گا، خورشید شاہ

دوسری جانب پیشی کے موقع پر صحافی کے اس سوال کہ آپ پر الزامات لگائے جارہے ہیں آپ کیا کہتے ہیں؟ کے جواب میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 90 روز پورے ہوجائیں پھر میں کھل کر بات کروں گا۔

ایک اور صحافی نے خورشید شاہ سے سوال کیا کہ آپ پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ اب مختصر سے مختصر ہوتے جارہے ہیں تو خورشید شاہ نے کہا کہ آپ صحافی ہیں، سکھر کے رہنے والے ہیں، آپ الزامات کی تحقیقات کرلیں۔

دوسری جانب پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل نیئر حسنین بخاری نے کہا ہے کہ خورشید شاہ کے خلاف انکوائری ابتدائی مراحل میں ہے اس لیے ان کی گرفتاری زیادتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کا الزام: ’500 ارب روپے کے اثاثوں‘ کا انکشاف

انہوں نے مزید کہا کہ خورشید شاہ کے خلاف ابھی تک ریفرنس دائر نہیں کیا گیا جبکہ خود نیب کا موقف ہے کہ انکوائری چل رہی ہے تاہم احتساب عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ دیتے ہوئے نیب کو ہدایت بھی کی ہے کہ مقررہ وقت میں خورشید شاہ کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جائے۔

نئیر بخاری کا مزید کہنا تھا کہ اگر نیب مقررہ وقت پر ریفرنس دائر نہیں کرے گا تو پھر قانون کا راستہ اختیار کریں گے۔

خیال رہے کہ 18 ستمبر کو قومی احتساب بیورو نے قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا تھا۔

خورشید شاہ کے خلاف تحقیقات

اس سے قبل 31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما پر ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلاحی پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اپنے فرنٹ مین یا ملازمین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔

نیب کے مطابق خورشید شاہ کے خلاف انکوائری میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (اے) اور شیڈول کے تحت بیان کردہ جرائم کے کمیشن میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

ان دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے پہلاج رائے گلیمر بینگلو، جونیجو فلور مل، مکیش فلور مل اور دیگر اثاثے بھی بنا رکھے ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کی رہائشی اسکیموں، پیٹرول پمپز، زمینوں اور دکانوں سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کرلیں ہیں۔

یاد رہے کہ خورشید شاہ بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، مریم نواز اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگئے، جو کرپشن کے الزامات پر زیر حراست یا ضمانت پر ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں