جنگ زدہ ملک افغانستان کیلئے 4 کروڑ یورو کی ہنگامی امداد مختص

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2019
تباہ کن سیلابوں نے بھی جنگ زدہ ملک کو متاثر کیا ہے۔—فائل فوٹو: ڈان نیوز
تباہ کن سیلابوں نے بھی جنگ زدہ ملک کو متاثر کیا ہے۔—فائل فوٹو: ڈان نیوز

یورپی کمیشن نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال سے متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک پاکستان اور ایران میں افغان مہاجرین کے لیے ہنگامی امداد کی مد میں 4 کروڑ یورو مختص کردیے۔

واضح رہے کہ 2019 میں افغانستان کے بحران کے لیے یورپی یونین کی مجموعی طور پر امداد کا حجم 7کروڑ 70 لاکھ یورو تک پہنچ گیا ہے۔

مزیدپڑھیں: مشرقی افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کا فضائی حملہ، 30 شہری ہلاک

اس حوالے سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ یورپی کمیشن کی جانب سے اب تک افغان متاثرین کے لیے افغانستان میں 6 کروڑ 10 لاکھ یورو، پاکستان میں 90 لاکھ یورو اور ایران میں 70 لاکھ یورو خرچ کیے جاچکے ہیں۔

مذکورہ اعلامیے کے مطابق کمشنر برائے ہیومینیٹری ایڈ اینڈ کرائسس منیجمنٹ کرسٹوس اسٹائلینائیڈز نے کہا افغانستان میں گزشتہ برس سے حکومت اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کے مابین تنازعات میں شدت آئی ہے جس کے باعث انسان دوست سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ تباہ کن سیلابوں نے بھی جنگ زدہ ملک کو متاثر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین خصوصاً بچوں کی مدد کے لیے امداد کا دائرہ وسیع کیا۔

مزیدپڑھیں: افغان امن کانفرنس: پاکستان، روس اور چین کا مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یورپی یونین کی مالی اعانت سے افغان مہاجرین کے ساتھ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے پاکستانیوں کو بھی مدد ملے گی۔

کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ ایران میں افغان مہاجرین کو تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی خدمات تک تحفظ اور رسائی ملے گی۔

انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین نے 1992 کے بعد سے افغانستان میں متاثرہ لوگوں کے لیے اب تک 87 یورو 20 لاکھ ڈالر فراہم کیے جاچکے ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں بدترین انسانی بحران ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی زلمے خلیل زاد سے ملاقات، افغان مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال

اس بحران سے سب سے زیادہ متاثرہ افراد وہ ہیں جو بے گھر ہوئے یا سرکاری افواج اور مسلح گروہوں کے مابین تنازع کی وجہ سے بنیادی انسانی خدمات تک رسائی سے محروم ہوگئے جبکہ اندازے کے مطابق اب تک بے گھر ہونے والے افراد کی 30 لاکھ 40 ہزار تک ہوگئی ہے۔

علاوہ ازیں کم از کم 60 لاکھ افغان باشندے اب بھی ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے رہائش پذیر ہیں۔

ان میں سے بیشتر رجسٹریشن یا قانونی حیثیت کے بغیر ہیں۔

2018 کی خشک سالی اور 2019 کے سیلاب کے بعد بھی افغانستان کے 34 میں سے 22 صوبوں میں 62 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔

افغان امن عمل

واضح رہے کہ ستمبر 2018 میں امریکا اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت اس نتیجے پر پہنچنے والی تھی کہ افغانستان میں پائیدار امن اور امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ طے پا جائے۔

رواں برس ستمبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ انہوں نے 11 ستمبر کے ہفتے کے اختتام پر افغان صدر اشرف غنی اور سینئر طالبان رہنما کو واشنگٹن کے نزدیک صدارتی ریزورٹ میں مدعو کیا تھا۔

تاہم افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دہشت گردی کے سلسلہ وار حملوں میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کی ہلاکت پر انہوں نے دعوت واپس لے لی تھی بلکہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی ختم کردیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

جس کے بعد گزشتہ ماہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد مذاکرات بحال کرنے کی گنجائش تلاش کرنے ایک مرتبہ پھر خطے کے دورے پر آئے تھے۔

چنانچہ لگتا ہے کہ امریکی، امن معاہدے کے سلسلے میں اہم کردار نبھانے کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور 18 سال سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے روس اور چین سے مدد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں اب بھی 14 ہزار امریکی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ نیٹو میں شامل ہزاروں کی تعداد میں یورپی فوجی اہلکار موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں